کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 7
قرآن اور علوم القرآن
تفسیرِ قرآن محمد رفیق چودھری
اُصولِ ترجمہ وتفسیرقرآنِ کریم
قرآنِ مجید کے ترجمہ و تفسیر کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے۔ اورعلماے اسلام نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نہایت قیمتی اور قابل قدر کام کیا ہے۔صحیح فہم قرآن کے لیے چند مسلّمہ بنیادی اُصول ہیں جن کا علم ضروری ہے ، ذیل میں بالاختصار یہ اُصول بیان کئے جاتے ہیں:
1. قرآنِ مجید کو سمجھنے سے قبل آدمی اپنے دل و دماغ کو ان تصورات اور تعصّبات سے بالکل خالی کردے جو اُس نے پہلے سے قائم کررکھے ہیں، ورنہ وہ قرآنی عبارات میں اپنے ہی خیالات پڑھتا رہ جائے گا اور اُسے اس کتاب ِ ہدایت سے کوئی رہنمائی میسر نہ آسکے گی۔
2. قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے گی۔ اس مسلّمہ قاعدے کو اپنایا جائے کہ ((القرآن یفسر بعضه بعضًا)) کہ قرآن کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی تفسیر کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ البقرۃ میں ہے:
﴿وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ أَبىٰ وَاستَكبَرَ وَكانَ مِنَ الكـٰفِرينَ 34 ﴾[1]
’’اور یاد کرو جب ہم نےفرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو وہ جھک گئے مگر ابلیس نہ جھکا۔ اُس نے انکار کیا او رتکبّر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔‘‘
اس مقام پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید ابلیس فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ تھا لیکن سورۃ الکہف میں اس کی وضاحت ہے کہ وہ جنوں میں سے ایک جن تھا، کوئی فرشتہ نہ تھا:
[1] سورۃ البقرۃ: 34