کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 67
ازالہ: اس کا جواب یہ ہے :
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت ِ ولادت پر شکر اسی نوع کا ہونا چاہئے جس نوع کا شکر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
2۔دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن جو بارہ ربیع الاول ہے، روزہ نہیں رکھا بلکہ آپ نے سوموار کے دن کاروزہ رکھا جو ہر مہینے میں چار پانچ مرتبہ آتا ہے ۔ اس بنا پر بارہ ربیع الاول کو کسی عمل کے لئے خاص کرنا اور ہر ہفتہ آنے والے سوموار کو چھوڑ دینا در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصحیح ہے جس کا کوئی مسلمان تصور ہی نہیں کر سکتا ہے ۔
3۔تیسرا یہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کے شکریہ میں سوموار کا روزہ رکھا تو کیا آپ نے روزے کے ساتھ کوئی محفل اور تقریب بھی منعقد کی جیسا کہ یہ میلادی لوگ کرتے ہیں کہ لوگوں کا ازدحام ہوتاہے ، مدحیہ اشعار اور نغمے پڑھے جاتے ہیں اور خصوصی کھانا پینا ہوتا ہے ؟
اسلامی عیدیں
میلاد منانے والے حضرات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے دن کو 'عید' کا دن قرار دیتے ہیں جبکہ اِس اُمّت کے اوّلیں دور سے ہی اہلِ اسلام کے ہاں 'سالانہ ' دو ہی عیدیں چلی آ رہی ہیں ۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو ان لوگوں کے سال میں دودن مقرر تھے جن میں وہ کھیلتے (خوشیاں مناتے) تھے۔رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ دو دن کیسے ہیں؟اُنہوں نے کہا : زمانۂ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں کھیلتے اور خوشی مناتے چلے آرہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللّٰهُ بِهِمَا خَیْرًا مِنْهُمَا: یَوْمَ الْفِطْرِ وَیَوْمَ الأضْحٰی)) [1]
الله تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمادئیے ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن ۔
اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوا کہ اسلامی تہوار کے طور پر منانے کے لئے شرعی عیدیں
[1] سنن نسائی : ۱۵۵۶... وصححہ الألبانی