کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 66
ازالہ: اس کا جواب یہ ہے : 1.۔یہ روایت کمزور ہے اور امام نووی نے اسے باطل حدیث قرار دیا ہے ۔[1] 2۔اور اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس میں یہ کہاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عقیقہ اپنی ولادت پر شکریہ ادا کرنے کے لئے کیا تھا ؟ یہ تو محض اپنے گمان پر مبنی ہے اور گمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا 28 ﴾ 3۔اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک ہی بار عقیقہ کیا تھا ، ہر سال تو نہیں کیا تھا ! جبکہ میلاد منانے والے تو ہر سال میلاد مناتے ہیں! 3. شبہ: صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا اور آپ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ ایک اچھا دن ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس دن موسی اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی...الخ۔[2] لہٰذا جب حضرتِ موسی علیہ السلام اور بنی اسرئیل کی نجات کے شکریہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کو روزہ کا دن نہیں بلکہ کھانے پینے اور جشن منانے کا دن بنائیں!! ازالہ: کس قدر عجیب ہے یہ بات ؟ اگر اس حدیث کو دلیل بنانا تھا تو اس کے مطابق روزہ رکھنے کی بات کرتے ، لیکن اُس کو تو چھوڑ دیا کیونکہ روزہ میں بھوک وپیاس کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو یار لوگوں کے لئے بڑا مشکل امر ہے ۔ اور بات کی تو کھانے پینے اور جشن منانے کی کی... کیا اللہ تعالیٰ کا شکر عیش ومستی اور دعوتیں اُڑا کر کیا جاتا ہے ؟ 4. شبہ: صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سوموار کا دن وہ دن ہے جس میں مَیں پیدا ہوا اور اسی دن مبعوث ہوا ...الخ[3]
[1] المجموع از امام نووی : ۸/ ۴۳۱ [2] صحیح بخاری: 204 [3] صحیح مسلم :2750