کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 65
یہ پانچوں دلیلیں اس لئے بھی ناکافی ہیں کہ اگر اُنھیں درست مان لیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(نعوذ باللہ ) چوک ہو گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن ان چیزوں کی طرف رغبت نہ دلائی جس کی تلافی یہ میلاد منانے والے کرتے ہیں!!
میلاد کو جائز قرار دینے والوں کے چند کمزور شبہات
1. شبہ: ایک واقعہ منقول ہے کہ بد نصیب ابو لہب کو خواب میں دیکھا گیا ۔ خیریت پوچھی گئی تو کہا کہ آگ کے عذاب میں مبتلا ہوں، البتہ ہر دو شنبہ کی رات کو عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور اپنی دو اُنگلیوں کے درمیان سے انگلی کے سرے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ اتنی مقدار میں پانی چوس لیتا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس کو اس کی باندی ثویبہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خبر دی تھی تو اس نے خوشی میں آکر اپنی اس باندی کو آزاد کر دیا تھا ۔[1]
ازالہ: اس کا جواب یہ ہے کہ 1۔ کسی کے خواب سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ 2۔دوسرا یہ کہ یہ روایت مرسل ہے جو ناقابلِ حجت ہوتی ہے ۔ 3۔تیسرا یہ کہ سلف اور خلف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کافر اگر کفر کی حالت میں مر جائے تو اس کو اس کے نیک اعمال کا ثواب نہیں ملے گا۔4۔ چوتھا یہ کہ ابو لہب کی خوشی ایک طبعی خوشی تھی ،تعبدی خوشی نہ تھی اور اگر خوشی اللہ کے لئے نہ ہو تو اس پر ثواب نہیں ملتا ہے ۔ 5۔پانچواں یہ کہ مؤمن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر ہمیشہ خوش ہونا چاہئے ، اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کو خاص کرنا درست نہیں ہے ۔
2. شبہ: روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ خود کیا تھا اور چونکہ آپ کے دادا نے بھی آپ کا عقیقہ کر دیا تھااور عقیقہ دو بار نہیں کیا جاتا تواصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کا شکرانہ ادا کرنے کیلئے عقیقہ کیا ۔ لہٰذا اُمّت کو بھی آپ کی ولادت کے دن کھانے پینے کا انتظام بطورِ خاص کرنا چاہئے۔
[1] صحیح بخاری:5101