کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 63
بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں ، اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز ِعمل سے بہتر طرزِ عمل پر ہو یا تم گمراہی کا ایک دروزاہ کھول رہے ہو! ''
لوگوں نے کہا : وَاللّٰهِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ
ابو عبد الرحمٰن ! اللہ کی قسم ہم نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا تھا ۔
اُنھوں نے فرمایا : وَکَمْ مِنْ مُرِیْدٍ لِلْخَیْرِ لَن یُّصِیْبَهُ "کتنے لوگ ہیں جو خیر کا ارادہ کرتے ہیں لیکن وہ خیر کو ہرگز نہیں پا سکیں گے ۔"[1]
ذرا غور کیجئے ، کیا تسبیحات کا پڑھنا برا عمل تھا ؟ یقیناً یہ برا عمل نہ تھا اور نہ ہی حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ نے تسبیحات پڑھنے پر اُنھیں برا بھلا کہا ، بلکہ ان کے لب و لہجہ میں جو سختی تھی وہ اس لئے تھی کہ انھوں نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ طیبہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل سے ہٹ کر تسبیحات پڑھتے ہوئے دیکھا ، کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کنکریوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیحات کوشمار کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ حلقوں میں بیٹھ کر اجتماعی شکل میں نہیں بلکہ انفرادی طور پر الگ الگ تسبیحات پڑھتے تھے ۔ تو ان کا یہ عمل اگرچہ لوگوں کی نظر میں کارِ خیر تھا، لیکن چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے ہٹ کر تھا اس لئے حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اُنھیں نہایت سخت الفاظ میں تنبیہ کی ۔انھوں نے یہ نہیں کہا کہ چلیں ٹھیک ہے ،کوئی بات نہیں، کیونکہ یہ عملِ خیر ہی ہے ، بلکہ انھو ں نے اسے گمراہی کا ایک دروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ دین میں کوئی بدعتِ حسنہ نہیں ہے ، ہر بدعت بری ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کے کچھ دلائل اور ان کا جواب
میلاد منعقد کرنے والے عموماً پانچ دلیلیں دیتے ہیں:
1. میلاد سالانہ یادگار ہے اور اُس کے منانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت میں
[1] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۲۰۰۵