کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 61
گمراہی ہے ۔ اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس کام کا کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ثبوت نہ ہو اور اسے دین میں ایجاد کیا گیا ہو وہ سب سے برا کام ہے چاہے وہ لوگوں کی نظر میں کتنا اچھا کیوں نہ ہو۔ اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ذرا سوچیں کہ اگر کارِ خیر کے نام پر دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرنا جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُن تین اشخاص کو تنبیہ کیوں کرتے جن میں سے ایک نے پوری رات قیام کرنے ، دوسرے نے ہمیشہ روزے رکھنے اور تیسرے نے عورتوں سے شادی نہ کرنے کا عزم کیا تھا ؟ کیا ان کے عزائم خیر کے کاموں کے متعلق نہ تھے ؟ کیا ان تینوں اشخاص نے کسی برے عمل کا ارادہ کیا تھا کہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں سخت تنبیہ کی ؟ یقینا انہوں نے خیر کے کاموں کا ہی ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ان عزائم کی تردید کردی کیونکہ وہ اگرچہ خیر کے کاموں کے متعلق ہی تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر تھے اور گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش ہو رہی تھی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ نام کی کوئی چیز اسلام میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک خیر کا کوئی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ثابت نہ ہو اس وقت تک وہ نہ خیر کہلا سکتا ہے اورنہ ہی وہ دین کا حصہ ہوتا ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ)) [1] '' جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا ، وہ مردود ہے۔'' مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)) [2] '' جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ، وہ مردود ہے۔ '' اِس حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ دین میں ہر نیا کام اور ہر نیا طریقہ مردود اور
[1] صحیح بخاری : ۲۶۹۷ ، صحیح مسلم : ۱۷۱۸ [2] صحيح بخارى :2697؛صحيح مسلم:4493