کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 6
اس لیے مذکورہ شق او راس میں بیان کردہ سزا کی تبدیلی کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ 5) جھوٹی گواہی کی سزا درخواست گزار کا یہ موقف بھی درست نہیں کہ جھوٹی گواہی کی جو سزا مذکورہ آرڈیننس میں ہے، اس کو تبدیل کرکے قذف والی سزا (80 کوڑے) مقرر کی جائے، اس لیے کہ قذف (کسی پر زنا کاری کی تہمت لگانا) ایک ایسی حد ہے جو قرآن کی سورۂ نور میں مذکور ہے جب کہ جھوٹی گواہی کی کوئی متعین سزا، باوجود نہایت شناعت و قباحت کے، قرآن و حدیث میں نہیں بتلائی گئی ۔بنا بریں جھوٹی گواہی کی تعزیری سزا کو منصوص حد پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ منصوص حد کا مطلب: اللہ کی بتلائی اور مقرر کی ہوئی سزا ہے جبکہ تعزیری سزا کا مطلب ہے: حالات و واقعات کے مطابق قاضی یا حاکم مجاز کی تجویز کردہ سزا۔ یہ دونوں سزائیں ایک کس طرح ہوسکتی ہیں؟ یا ایک کو دوسرے کے ساتھ کس طرح ملایا جاسکتا ہے؟ 6) چوری کی سزا مذکورہ آرڈیننس میں چور کی سزا یہ قرار دی گئی ہے کہ اسے تین سال تک قید کی سزا، یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں جبکہ چور کی چوری ثابت ہوجائے اور وہ ملزم سے مجرم بن جائے۔ اس کی بابت درخواست گزار کا یہ موقف کہ یہ سزا قرآن کریم کی آیت: ﴿وَالسّارِ‌قُ وَالسّارِ‌قَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما...38 ﴾... سورة المائدة" (چور کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ، چور چاہے مرد ہو یا عورت) کے خلاف ہے، بالکل صحیح ہے۔مذکورہ آرڈیننس میں چور کی سزا کو بدل کر ہاتھ کاٹنا کیا جائے، تاکہ یہ سزا قرآنِ کریم کے مطابق ہوجائے۔