کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 59
تشریف لاتے ہیں اور اس بناپر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام اور خوش آمدیدکہنے لے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔جبکہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بد ترین جہالت ہے ۔کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور آپ کی مُبارک رُوح اعلیٰ علیین دارالکرا مۃ میں اپنے ربِّ عظیم کے پاس ہے ۔ اور آپ قیامت سے پہلے اپنی قبر مُبارک سے باہر نہیں آئیں گے ۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے سورۂ مومنون میں اِرشاد فرمایا : ﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعدَ ذ‌ٰلِكَ لَمَيِّتونَ 15 ثُمَّ إِنَّكُم يَومَ القِيـٰمَةِ تُبعَثونَ 16 ﴾[1] پھر اس کے بعد تم مرجاتے ہو پھر تمھیں قیامت کے روز اُٹھا یا جائے گا۔ اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ یَّنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُُشَفَّعٍ)) [2] میں قیامت کے دن اولادِ آدم ( علیہ السلام) کا سردار ہو ں گا اور سب سے پہلے میری قبر کا منہ کھولا جائے گا۔ سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ کیا دین میں بدعت ِ حسنہ کا وجود ہے ؟ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنا جن کا قرآن وحدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل سے کوئی ثبوت نہ ملتا ہو نہایت خطرناک امر ہے۔ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے او رہر بدعت گمراہی ہے، ایسے کام کرنے والے لوگ قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حوضِ کوثر کے پانی سے محروم کردئیے جائیں گے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار نصیحت کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے من جملہ باتوں کے یہ بھی ارشاد فرمایا: ((أَلاَ وَ إِنَّهُ سَیُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَیُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أَصْحَابِي؟ فَیُقَالُ: إِنَّكَ لاَ تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ)) [3]
[1] سورۃ الموٴمنون : ۱۱۶ [2] صحیح مسلم : ۲۲۷۸ [3] صحيح بخاری : ۶۵۲۶ ؛ صحيح مسلم : ۲۸۶۰