کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 57
روزہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ان کی یہ باتیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچیں تو آپ اُن کے پاس آئے اور فرمایا : ((أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا؟ أَمَا وَاللّٰهِ إِنِّي لَأَخْشَاکُمْ لِلهِ وَأَتْقَاکُمْ لَهُ، لٰکِنِّي أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّيْ وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي)) [1] " کیا وہ تم ہو جنھوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں ؟ تمھیں جاننا چاہئے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں ۔ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں ، میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔ لہٰذا جو شخص میرے طریقے سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہوگا۔" اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنی اس حیثیت کو ذکر فرمایا کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ متّقی اور سب سے بڑا عبادت گذار ہوں ۔ پھر آپ نے اپنے طریقہٴ کار کی وضاحت فرمائی اور اس کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ میرے اِس طرزِ عمل سے منہ پھیر کر کوئی اور طرزِ عمل اختیار کرنے والے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔اِس سے ثابت ہوا کہ صرف اُن عبادات پر عمل کرنا چاہئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں اور کسی ایسے عمل کو عبادت تصور نہیں کرنا چاہئے جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت نہ ملتا ہو ۔ یہ تینوں اُصول ہمیں یہ بات سمجھانے کیلئے کافی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ اور یہ کہ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنا اور ان پر عمل کرنا حرام ہے ۔ اور انہی تین اصولوں کی بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ مروّجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ دین کا حصہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ دین کا حصّہ ہوتا تو قرآن وحدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل سے اس کا کوئی ثبوت ضرور ملتا اور اس کے بارے
[1] صحیح بخاری: ۵۰۶۳ ؛ صحیح مسلم : ۱۴۰۱