کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 55
نیز فرمایا : ((مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللّٰهُ بِه إِلاَّ قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَهَاکُمْ عَنْهُ إِلاَّ قَدْ نَهَیْتُکُمْ عَنْهُ)) [1] " اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے ۔ " ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے اُمّت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے اُمّت کو روک نہ دیا ہو ۔ لہٰذا یہ جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ ہر وہ عمل جو لوگوں کے نزدیک خیر وبھلائی کاعمل تصور کیا جاتا ہو وہ اس وقت تک خیر وبھلائی کا عمل نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی حکم یا ترغیب ثابت نہ ہو ۔ اسی طرح برا عمل ہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی فرمان ثابت نہ ہو وہ برا تصور نہیں ہوگا ۔ گویا خیر وشر کے پہچاننے کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،کسی کا ذوق و رغبت نہیں کہ جس کا جی چاہے دین میں اپنے زُعم کے مطابق خیر کے کام داخل کرتا رہے یا اپنی منشا کے مطابق کسی عمل کو برا قرار دے دے۔ پھر یہ بات بھی سوچنی چاہئے کہ کیا نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( معاذ اللہ ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اوّلین ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے جس کی بنا پر اب بھی دین میں کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے ؟ یقیناً یہ بات لازم آتی ہے ۔ اسی لئے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے : ((مَنِ ابْتَدَعَ فِي الإِسْلاَمِ بِدْعَةً یَرَاهَا حَسَنَةً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم خَانَ الرِّسَالَةَ، اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰهِ تَبَارَكَ وَتَعَالىٰ ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...3 ﴾... سورة المائدة" لَنْ یَصْلُحَ آخِرُ هَذِهِ
[1] سلسلۃ الاحاديث الصحیحۃ از البانی : ۱۸۰۳