کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 53
ہم نے اب تک جو لکھا ہے اگرچہ یہ ایک سنجیدہ اور دیانتدار آدمی کو سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ شریعت میں مروّجہ عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حیثیت نہیں ۔ تاہم اِس کی مزید وضاحت کے لئے اب ہم کچھ ایسے اصول بیان کرنا چاہتے ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ان کی بنا پر اِس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا کہ مروّجہ عید میلاد النبی دین میں ایک نیا کام (بدعت) ہے: 1. اسلام ایک مکمل دین ہے : اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیّت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ اس لئے شارع نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی...لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اسلام کی ثابت شدہ تعلیمات سے انحراف کرتے جا رہے ہیں بلکہ غیر ثابت شدہ چیزوں کو اس میں داخل کرکے انہی کو اصل اسلام تصور کر بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ جب دین مکمّل ہے اور اس کی ہدایات واضح ، عالمگیر اور ہمیشہ رہنے والی ہیں تو نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے اُنھیں اس کا حصہ بنا دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ ارشادِ باری ہے : ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...3 ﴾[1] آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔ سو اللہ ربّ العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔ اللہ ربّ العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ آپ صحیحین کی ایک روایت سے کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر الموٴمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے
[1] سورۃ المائدة : ۳