کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 52
دین اِس کے قائل تھے تو پھر آج کے مسلمان اِس کے منانے پر کیوں بضد ہیں ؟ کیا اُن سب حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت نہ تھی جس کا دعوٰی اِس دور کے لوگ کر رہے ہیں؟ اگر تھی اور یقینا اِن لوگوں سے کہیں زیادہ تھی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت کیوں نہ منایا؟ یہاں ایک اور بات نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام بطورِ عبادت نہیں کیا وہ قطعًا دین کا حصہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اسے دین سمجھ کر یا کارِ خیر تصور کرتے ہوئے سر انجام دے ۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ کےلئے اذان نہیں کہلوائی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اِس کا کوئی وجود تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہلوائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اِس کا کوئی وجود نہ تھا تو قیامت تک کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اِسے دین کا حصہ یا عبادت تصور کرے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا اذان میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور ذکر اللہ نہیں ہے ؟ یقیناً اذان اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی بڑائی پر مشتمل ہے لیکن نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ سے پہلے مشروع نہیں ہے ۔ اسی طرح 'جشن میلاد' کا مسئلہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم نے منایا تو قیامت تک اسے دین کا حصہ یا کارِ ثواب تصور کرنا درست نہیں ہے ۔ اسی لئے حضرت حذیفہ کہتے تھے : ((کُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ یَتَعَبَّدْهَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلاَ تَعْبُدُوْهَا)) ہر وہ عبادت جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضی اللہ عنہم نہیں کرتے تھے اُسے تم بھی عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے : ((اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ)) [1] " تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو، کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے ۔ اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے ) موجود تھا ۔
[1] حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم از امام البانی: ص ۱۰۰؛ سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ:372