کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 51
از عصر ان قبوں میں جاکر ناچ رنگ وغیرہ سن کر خوش ہوتا اور خود ناچتا ۔ پھر اپنے قبہ میں تمام رات رنگِ لہو ولعب میں مشغول ہورہتا اور دو روز قبل ایامِ مولود کے اونٹ ،گائیں ،بکریاں بے شمار طبلوں اور آلاتِ گانے ولہو کے ساتھ جتنے اس کے یہاں تھے، نکال کر میدان میں ان کو ذبح کراکر ، ہر قسم کے کھانوں کی تیاری کراکر مجالسِ لہو کو کھلاتا اور شبِ مولود کی کثرت سے راگ قلعہ میں گواتا تھا ۔[1] یہ تو تھا اِس کا موجد ۔ اور جہاں تک اِس کے جواز کا فتوی دینے والے شخص کانام ہے، تو وہ ہے: ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن دحیہ کلبی متوفی ۶۳۳ھ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: بن نجار کہتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو اسکے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ۔[2] وہ ائمہ دین اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنے والا اور خبیث زبان والا تھا ۔ بڑا احمق اورمتکبر تھا اور دین کے کاموں میں بڑا بے پرواہ تھا۔[3] یہ وہ شخص تھا جس نے ملک ِ اربل کو جب محفل ِ میلاد منعقد کرتے دیکھا تو نہ صرف اس کے جواز کا فتوٰی دیا بلکہ اس کے لئے مواد جمع کر کے ایک کتاب بنام التنویر في مولد السراج المنیر بھی لکھ ڈالی ۔ اسے اُس نے بادشاہِ اربل کی خدمت میں پیش کیا تواس نے اس کے صلہ میں اس کو ایک ہزار اشرفیوں کا انعام دیا ۔[4] اِن تمام حقائق سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً چھ سو سال بعد کیا گیا ۔ لہٰذا آپ ذرا غور کریں کہ جب اِس جشن کا نہ قرآن وحدیث میں ثبوت ملتا ہے ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل میں اِس کا وجود نظر آتا ہے ، نہ قرونِ اولیٰ کی پوری تاریخ میں اِ س کا تصور پایا جاتا ہے اور نہ ائمہ
[1] فتاویٰ رشیدیہ :ص ۱۳۲ [2] لسان المیزان:۲/ ۲۹۵ [3] ايضاً:۴/ ۲۹۶ [4] وفیات الأعیان لابن خلکان : ۳/ ۴۴۹