کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 49
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم محمد اسحٰق زاہد[1] جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت ربیع الاوّل میں درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاوّل کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا ہے ۔ چنانچہ بہت سارے مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے حوالے سے ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو 'عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اورجشن مناتے ہیں ۔ عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا اور جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں ، نعت خوانی کےلئے محفلیں منعقد کی جاتیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور چھٹی بھی کی جاتی ہے ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قرآن وحدیث میں 'جشن میلاد' کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا میلاد منایا یا اس کی ترغیب دلائی ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین میں سے کسی نے اپنے دورِ خلافت میں میلاد کے حوالے سے جشن منایا یا یومِ ولادت کو عید کا دن قرار دیا ؟کیا قرونِ اولیٰ میں اِس 'عید' کا کوئی تصور تھا ؟ اگر قرآن وحدیث اور قرونِ اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان تمام سوالات کے جوابات کچھ یوں ملتے ہیں : 1. قرآن وحدیث میں جشن یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ 2. نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا میلاد منایا اور نہ اس کی ترغیب دلائی ۔ 3. پھر خلفاے راشدین میں سے کسی نے اپنے دورِ خلافت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے حوالے سے کوئی جشن سرکاری طور پر یا غیر سرکاری طور پر نہیں منایا اور نہ ہی یومِ ولادت کو عید کا دن قرار دیا ۔ حالانکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت تھی اور اگر وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے کیونکہ
[1] ناظم اعلیٰ مرکز دعوۃ الجالیات ،الکویت