کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 44
''اور جب صفر كے ابتدائى ایام شروع ہوتے تو وہ ان قبوں كو مختلف قسموں كے قمقموں اور فخریہ زیبائش سے مزین كرتے، اور ہر قبے میں ایك گروپ گانے والا اور ایك گروپ اربابِ خیال اور ایك گروپ كھیل تماشہ كرنے والا بیٹھتا، اور ان طبقات میں ( قبوں كے طبقہ میں سے ) سے كوئى طبقہ خالى نہ چھوڑتے بلكہ اس میں گروپ مرتب كرتے ۔''[1] تو پھر اس دن بدعتى لوگ جو سب سے بڑا كام كرتے اور اس كا احیا كرتے ہیں وہ مختلف قسم كےكھانے پكا كر تقسیم كرنا اور لوگوں كو كھانے كى دعوت دینا ہے، اس لیے اگر مسلمان اس عمل میں شریك ہو كر ان كا كھانا كھائے اور ان كے دستر خوان پر بیٹھے تو بلا شك و شبہ وہ اس بدعت كو زندہ كرنے میں معاون اور شریك ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے: ﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...2 ﴾[2] ''اور تم نیكى و بھلائى كے كاموں میں ایك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زیادتى میں ایك دوسرے كا تعاون مت كرو۔'' اسى لیے اہل علم كے فتاوىٰ جات میں اس روز اور بدعتیوں كے دوسرے تہواروں میں تقسیم كیا جانے والا كھانا اور اشیا تناول كرنے كو حرام قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ میلاد النبى كے موقع پر ذبح كردہ گوشت كھانےكا حكم كیا ہے ؟ تو آپ كا جواب تھا: '' اگر تو وہ میلاد والے ( یعنى جس كا میلاد منایا جا رہا ہے ) كے لیے ذبح كیا گیا ہے تو یہ شركِ اكبر ہے، لیكن اگر اس نے كھانے كے لیے ذبح كیا ہے تو اس میں كوئى حرج نہیں۔ لیكن اسے كھانا نہیں چاہیے، اور نہ ہى مسلمان اس مجلس اور میلاد میں حاضر ہو تا كہ وہ برائى كا عملى اور قولى طور پر انكار كر سكے؛ اِلا یہ اگر وہ اُنہیں نصیحت كرنے اور اس بدعت كو واضح كرنےكےلیے وہاں جائے لیكن اس میں سے كچھ نہ لے۔''[3] میلاد النبى كى مٹھائى خریدنا سوال: كیا عید میلاد النبى صلی اللہ علیہ وسلم سے ایك روز قبل یا ایك روز بعد ...یا میلاد النبى كے دن میلاد كى مٹھائى
[1] دیكھیے وفيات الاعيان : 3 /274 [2] سورۃ المائدۃ :2 [3] مجموع الفتاوٰى : 9 /74