کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 43
كا قصہ پڑھتے ، یا پھر اس مناسبت سے تقاریر اور قصیدے پڑھتے ہیں۔ 2. كچھ لوگ اس مناسبت سے كھانا وغیرہ اور مٹھائى تیار كر كے حاضرین كو پیش كرتے ہیں۔ 3. كچھ لوگ مساجد میں قیام ، اور كچھ لوگ اپنے گھروں میں قیام اور عبادت كرتے ہیں۔ 4. اور كچھ ایسے بھى ہیں جو مندرجہ بالا اُمور پر ہى اکتفا نہیں كرتے بلكہ ان كا یہ اجتماع دیگر حرام اور برائیوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں مرد و عورت كا اختلاط اور رقص وسرور كى محفل اور گانا بجانا بھى شامل ہے، یا پھر وہ شركیہ اعمال مثلاً نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ اور آپ كو دشمن كے خلاف اپنی مدد كےلیے پكارتےہیں۔ اور یہ سب اشكال و انواع اور اس كے كرنے والوں كے اغراض و مقاصد مختلف ہونے كے باوجود بلاشك و شبہ یہ عید وجشن حرام اور بدعت ہے جو دین میں قرونِ مفضلہ كے كئى سالوں كے بعد ایجاد كى گئى ہے۔اس بدعت كو ایجاد كرنے والا سب سے پہلا شخص ملك المظفر ابو سعید كوكبورى ہے جو چھٹى صدى كے آخر یا ساتویں صدى كےشروع میں 'اربل' كا بادشاہ تھا، جیسا كہ مؤرخین مثلاً ابن كثیر اور ابن خلكان وغیرہ نے ذكر كیا ہے۔اور ابو شامہ كہتے ہیں: ''موصل میں اس كو منانے والا سب سے پہلا شخص عمر بن محمد ملا تھا جو صالحین میں سے ایك صالح مشہور ہے، شاہ ِاربل نے اس كى پیروى میں یہ جشن منایا تھا۔''[1] حافظ ابن كثیر رحمۃاللہ علیہ ابو سعید كوكبورى كے ترجمہ میں كہتے ہیں: ''یہ شخص ربیع الاول میں میلاد النبى كا بہت بڑا جشن منایا كرتا تھا۔'' پھر كہتے ہیں: سبط كا كہنا ہے کہ ''مظفر كے جشنِ میلاد النبى میں حاضر ہونے والوں میں سے ایك كا بیان ہے كہ: اس جشن اور كھانے میں ملك مظفر پانچ ہزار بكرے اور دس ہزار مرغیاں بھون كر اور ایك لاكھ زبدہ اور تیس ہزار حلوے كى پلیٹیں پیش كرتا۔'' مزید لکھتے ہیں کہ ''اور وہ صوفیوں كے لیے ظہر سے فجر تك محفل سماع قائم كرتا اور ان كے ساتھ خود بھى رقص كرتا تھا ۔''[2] اور وفیات الاعیان میں ابن خلكان كہتے ہیں:
[1] دیكھیے: البيان لأخطاء بعض الكتاب :268،270 [2] دیكھیے البدايۃ: 13 /137