کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 41
میلاد النبى كے روز تقسیم كردہ اشیا كھانے كا حكم سوال: كیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم كى میلاد كے سلسلہ میں تقسیم كردہ اشیا اور كھانے وغیرہ كھانا جائز ہیں؟ كچھ لوگ اس كى دلیل یہ دیتے ہیں كہ ابو لہب نے جب نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كى میلاد میں لونڈى آزاد كى تو اللہ تعالىٰ نے اُس روز اس كے عذاب میں كمى كردى ۔ جواب: اوّل:شریعتِ اسلامیہ میں كوئى ایسى عید نہیں جسے عید میلاد النبى كے نام سے موسوم كیا جاتا ہو، اور پھر صحابہ كرام رضی اللہ عنہم اور نہ ہى تابعین عظام حتى كہ ائمہ اربعہ اور دوسرے علما بھى اپنےدین میں اس دن كو جانتے تك نہ تھے، بلكہ اس عید كو تو باطنیہ میں سے بعض جاہل اور بدعتى لوگوں نے ایجاد كیا، اور پھر لوگ اس بدعت پر عمل كرنے لگے۔ہر دور اور ہرجگہ علماے كرام اس كو برا جانتے اور اس سے روكتے رہے۔ دوم:اس بنا پر اس دن جو کام بھى لوگ اس سے خاص كرتے ہیں وہ حرام اور بدعی کاموں میں شمار ہوتے ہیں، كیونكہ وہ ہمارى اس شریعت میں اس بدعى عید كو جارى كرنا چاہتے ہیں، مثلاً جشن منانا یا كھانے وغیرہ تقسیم كرنا جیسےامور۔ شیخ صالح فوزان اپنى كتاب'البیان لاخطاء بعض الكتاب 'میں بیان كرتے ہیں: '' كتاب و سنّت میں اللہ تعالىٰ اور اس كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كے مشروع كردہ اعمال پر چلنے اور دین میں بدعت ایجاد كرنے كى ممانعت كسى پر مخفى نہیں۔'' اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے: ﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر‌ لَكُم ذُنوبَكُم...31 ﴾[1] ''كہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو میرى ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم كى ) پیروى اور اتباع كرو، اللہ تعالىٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لےگا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔'' اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا: ﴿اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَ‌بِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ۗ قَليلًا ما تَذَكَّر‌ونَ 3﴾[2]
[1] سورة آل عمران: 31 [2] سورۃ الانعام : 153