کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 40
سكتا ہے، وہ بالكل واضح ہیں وہ اس طرح كہ ''عبادات میں اصل ممانعت ہے، لیكن جب كسى عبادت كى دلیل مل جائے تو وہ جائز ہے، اسلئے اللہ كى عبادت اور اللہ كا قرب اس صورت میں ہى كیا جائے گا جس كى كتاب و سنت میں اس كى مشروعیت پر كوئى دلیل ملتى ہو۔'' اور مسلمان كے لیے دوسرا اصول یہ ہے كہ وہ اتباع و پیروى كرے، نہ كہ ابتداع یعنى بدعات كى ایجاد اور بدعات پر عمل نہ کرے، كیونكہ بدعت كا عمل كرنے والے كا وہ عمل مردود ہے اس كے منہ پر دے مارا جائے گا۔ اور پھر اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے تو ہمارے لیے شریعت كى تكمیل كر دى ہے، اور اپنى نعمت ہم پر مكمّل كر دى ہے، پھر اس طرح كى بدعت كیا ضروری ہے كہ وہ ہمارى زندگى میں ضرور ہونى چاہیے حالانكہ جو صحیح اور ثابت ہے، اس پر تو ہم عمل پیرا نہیں ہوتے ؟ اُمید ہے كہ جو كچھ بیان كر دیا گیا ہے، ان بہنوں كے لیے اس قسم كى بدعات سے اجتناب كرنے كے لیے وہى كافى ہوگا، اور ہم ان بہنوں كو تلقین كرتے ہیں كہ وہ اللہ كا تقوىٰ وپرہیزگارى اختیار كرتے ہوئے اچھى طرح سنّت كى پیروى كریں۔ اور اُنہیں یہ علم ہونا چاہیے كہ اللہ تعالىٰ بدعتى كى عبادت قبول نہیں فرماتا، چاہے وہ جتنى بھى كوشش و جدوجہد كرے اور كتنا بھى مال اس میں صرف كر ڈالے كیونكہ ''سنّت پر عمل كرنا چاہیے خواه سنت تھوڑى ہى ہو بدعت میں اجتہاد(مشقت وجستجو) كرنے سے بہتر ہے۔'' جس طرح جلیل القدر صحابى رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كا قول ہے: ((اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ)) [1] " تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو، کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے ۔ اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے ) موجود تھا ۔'' اللہ تعالىٰ سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارى ان بہنوں كو ان اعمال اور طریقہ كى راہنمائى فرمائے جس میں اللہ كى رضا و خوشنودى پنہاں ہے، اور ہم آپ كو حسن تبلیغ كى وصیت كرتے ہیں كہ آپ اچھے اور بہتر اُسلوب میں اُنہیں سنّت پر عمل كرنے كى دعوت دیں اور آپ اس میلاد میں اُن كے ساتھ شریك مت ہوں اور اس میں جو تكلیف آپ كو پہنچے اس پر صبر و تحمل سے كام لیں۔
[1] حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم از البانی: ص ۱۰۰