کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 4
نعمانی لکھتے ہیں: ’’ اس صیغے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایجاد یہ ہے کہ جیل خانے بنوائے، ان سے پہلے عرب میں جیل خانے کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سزائیں سخت دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اوّل مکہ معظّمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم میں خریدا اور اس کو جیل خانہ بنا دیا، پھر اور اضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے... اس وقت تک صرف مجرم قید خانے میں رکھے جاتے تھے او رجیل خانے میں بھجوائے جاتے تھے۔ جیل خانہ تعمیر ہونے کے بعد بعض سزاؤں میں تبدیلی ہوئی، مثلاً محجن ثقفی بار بار شراب پینے کے جر م میں ماخوذ ہوا توبالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُسے حد کی بجائے قید کی سزا دی۔ ‘‘[1] اگر قید کی سزا قرآن کے خلاف ہوتی جیسا کہ درخواست گزار کا موقف معلوم ہوتا ہے تو یہ سزا نہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم دیتے اور نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق جیل خانے بنواتے اور نہ لوگوں کو سزائے قید دیتے۔ 2) قصاص کی سزا البتہ درخواست گزار کا یہ موقف صحیح معلوم ہوتا ہے کہ کریمنل لاء ترمیمی آرڈیننس مجریہ 1991ء کی شق 302 کی ذیلی شقوق B اور C کی بجائے یہ ترمیم ہو کہ قتل عمد کی معافی کی صورت میں دیت کی ادائیگی معروف طریقے سے ہو یا اگر دیت بھی معاف کردی جائے تو ہر دو صورت میں قاتل کے لیے سزائے قید کا جواز باقی نہیں رہتا۔باقی رہی آخرت کی سزا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ 3) قتل خطا کی سزا اسی آرڈیننس میں قتل خطا(بصورتِ خطرناک ڈرائیونگ) کی سزا دیت کے علاوہ دس سال
[1] ’الفاروق‘ از علامہ شبلی نعمانی : ص346، 347