کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 39
شامل ہے اور اس كے علاوہ باقى حقوق كى ادائیگى كرنا بھى جن كى وضاحت قرآن و سنت میں ہوئى ہے۔ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنى اُمّت كے لیے یہ ذكر نہیں كیا كہ ان كى ولادت باسعادت كا جشن میلاد النبى صلی اللہ علیہ وسلم منانا مشروع ہے تا كہ اس پر عمل كیا جائے اور نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھى سارى زندگى اس پر عمل نہیں كیا اور نہ آپ كے بعد صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے جو سب لوگوں سے زیادہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت كرنے والے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے حقوق كو جاننے والے اور علم ركھنے والے تھے۔ نہ تو اُنہوں نے اور نہ ہى خلفاے راشدین نے اور نہ ہى كسى اور نے میلاد النبى كا جشن منایا، پھر خیر القرون یعنى پہلے تین بہترین دور كے لوگوں نے بھى اس جشن كو نہیں منایا، كیا آپ كے خیال میں یہ سب لوگ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كے حقوق كى ادائیگى میں كمى و كوتاہى كرنے والے تھے، حتىٰ كہ یہ بعد میں آنے والے افراد نے اس نقص اور كمى كو واضح كیا اور اس حق كو پورا كیا؟! نہیں اللہ كى قسم ایسا نہیں ہو سكتا كہ یہ سب صحابہ كرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ كرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے حقوق سے جاہل و غافل تھے، یا اس میں كمى و كوتاہى كى، كوئى عقل مند ایسى بات اپنى زبان سے نكال ہى نہیں سكتا جو ان صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام كے حالات سے واقف ہو۔ عزیز قارئین! جب واضح ہو گیا كہ میلاد النبى كا جشن نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كے دور میں موجود نہ تھا اور نہ ہى صحابہ كرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور ائمہ كرام كے ادوار میں اس پر عمل كیا گیا، اور نہ ہى یہ چیز ان كے ہاں معروف تھى تو اس سے آپ كو یہ علم بھى ہو گیا كہ یہ دین میں نیا ایجاد كردہ كام ہے اور یہ بدعت كہلاتا ہے ،اس پر عمل كرنا جائز نہیں، اور نہ ہى اس كى دعوت دینى اور اس میں شریك ہونا جائز ہے، بلكہ اس سے روكنا اور منع كرنا اور لوگوں كو اس سے بچانا واجب ہے ۔''[1] سوم:كسى بھى شخص كے لیے كسى دعااور ذكر كى اختراع كرنا اور اسے نشر كرنا اور پھیلانا جائز نہیں، اور دعاء الرابطة نامى دعا بدعت ہے اور اس میں یہ سوچ اور فكر پیش كى گئى ہے كہ جن سے مانگا جا رہا ہے، انہیں ذہن میں اپنے سامنے ركھا جائے اور یہ اعتقاد ہونا چاہیے كہ وہ دعا كرنے والے كو پہچانتے ہیں اور اُنہیں جنت میں بلائیں گے؛ یہ سب وہمى خیالات اور صوفیوں كى اختراعات ہیں جن كى دین اسلام میں كوئى اصل نہیں ملتى۔ وہ شرعى ضوابط اور اُصول و قواعد جن سے مسلمان شخص سنّت و بدعت اور غلط و صحیح كى پہچان كر
[1] دیكھیں: مجموع فتاوىٰ شيخ ابن باز : 6/ 318 ،319