کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 3
کردیا: ((أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم حَبس رجلاً في تهمة)) [1]
ایک اور حدیث سنن ابو داؤد ہی میں ہے، اس پر باب کا عنوان ہی یہ ہے:
((باب في الدَّین هل یُحبس؟))
اس بات کا بیان کہ کیا قرض (کی عدم ادائیگی) پر قید کیا جاسکتا ہے؟
امام ابوداؤداس باب میں مذکورہ حدیث کے علاوہ ذیل کی حدیث بھی لائے ہیں:
((لَيُّ الْوَاجد یحلّ عرضه وعقوبته. قال ابن المبارك: یحل عرضه: یغلظ له. وعقوبته: یحبس له)) [2]
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا حلال کردیتا ہے اس کی عزت اور اس کی سزا کو۔ امام ابن مبارک نے فرمایا: ''عزت کوحلال کردیتا ہے، کا مطلب ہے ، اس کو سخت باتیں کہی جاسکتی ہیں جس سے اس کی بے عزتی ہو اور سزا کو حلال کردیتا ہے ، کا مطلب ہے، اسکو سزاے قید دی جاسکتی ہے۔''
اسی باب میں ایک اور حدیث بھی ہے، اس سے بھی شارحین نے سزاے قید ہی کا مفہوم لیا ہے۔[3]
اسی طرح درخواست گزار کا یہ کہنا کہ سورۂ نساء کی آیت سے صرف فاحشہ عورتوں کو گھروں میں قید رکھنے کا ثبوت ملتا ہے، ان کے علاوہ دوسروں کو سزائے قید نہیں دی جاسکتی، صحیح نہیں ہے۔ یہ اسلام میں فاحشہ عورتوں کے لیے ابتدائی سزا تھی جو زنا کی سزا مقرر ہونے کے بعد منسوخ ہوگئی۔ اب زنا کی سزا، مرد ہو یا عورت،شادی شدہ کے لئے رجم او رکنواروں کے لیے سو کوڑے ہیں۔اس لیے اس آیت سے بھی استدلال غیر صحیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگرچہ باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سزائے حَبس (قید) دی ہے۔ باقاعدہ جیل خانے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بنے ہیں۔ علامہ شبلی
[1] سنن ابو داؤد :رقم الحدیث3630
[2] سنن ابو داود:3628
[3] عون المعبود:3/350 ... طبع قدیم