کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 29
اور ان كااس حدیث سے استدلال كرنا صحیح نہیں کہ'' جب ابن آدم مر جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہیں لیكن تین قسم كے عمل ایسے ہیں جو جارى رہتے ہیں ...'' بلكہ جب اس حدیث پر غور كیا جائے تو یہ فوت شدگان كے لیے قرآن خوانى وغیرہ كے ایصال ثواب كى عدم مشروعیت پر دلالت كرتى ہے، كیونكہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ» ''نیك و صالح اولاد جو اس كے لیے دعا كرتى ہے ۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا : ''وہ اُس كے لیے قرآن خوانى كرتى ہے ۔'' میلاد کی اجتماعی مجلس اور اس میں دعاے رابطہ سوال : ہمارے ہاں اس طرح عید میلاد النبى منائی جاتی ہے جو صبح دس بجے شروع ہو كر شام تین بجے تك جاری رہتى ہے۔ اس مجلس کی ابتدا استغفار ، حمد و تسبیح ، تكبیرات اور نبى صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام سے ہوتى ہے اور پھر ہم قرآن پڑھتے ہیں، اور بعض عورتیں اس دن روزہ بھى ركھتى ہیں تو كیا اس دن كو یہ مذکورہ عبادات كے لیے مخصوص كرنا بدعت شمار ہوگا؟ اسى طرح ہمارے ہاں ایك بہت لمبى دعا ہے جو سحرى كے وقت كى جاتى ہے جو اس كى استطاعت ركھتا ہو۔ اس دعا كا نام 'دعاے رابطہ'ہے۔ اس دعا میں نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دورد و سلام، آپ كے صحابہ رضی اللہ عنہم پر رحمت، جملہ انبیا،اُمّہات المؤمنین اور صحابیات پر سلام،خلفاے راشدین اور تابعین عظام اور اولیا و صالحین پر رحمت كى دعا كے ساتھ ہر ایك اپنا نام ذكر كرتا ہے۔اور كیا یہ صحیح ہے كہ ان سب ناموں كا ذكر كرنے سے وہ ہمارا تعارف كر لیتے ہیں اور جنّت میں ہمیں پكاریں گے، كیا یہ دعا بدعت نہیں؟ میں تو یہى سمجھتى ہوں كہ یہ بدعت ہے، لیكن اكثر عورتیں میرى مخالفت كرتى ہیں، اگر میں غلطى پر ہوں تو كیا اللہ مجھے سزا دے گا، اور میں حق پر ہوں تو مجھے بتائیں كہ میں اُنہیں كیسے مطمئن كر سكتى ہوں؟ میں اس مسئلہ سے بہت پریشان ہوں جب بھى نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كى درج ذیل حدیث ذہن میں آتى ہے تو میرى پریشانى اور غم اور بھى زیادہ ہو جاتا ہے کہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: ((كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِى النَّارِ)) [1] '' ہر نیا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ میں ہے ۔''
[1] سنن نسائی:1589