کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 28
''كہہ دیجئے یہ تو مؤمنوں كے لیے ہدایت و شفا كا باعث ہے ۔''[1] اور نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: ((يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ .. كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا)) [2] ''روزِ قیامت قرآنِ مجید پر عمل كرنے والوں كو لایا جائے گا، سورۃ البقرۃ اور آلِ عمران آگے ہوں گى گویا كہ وہ دو بادل ہیں یا پرندوں كے دو جھنڈ ہوں وہ ان كا دفاع كر رہى ہوں گى۔'' مقصد یہ ہے كہ قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے كہ اس پر عمل كیا جائے اور اس كى تلاوت كثرت سے ہو، نہ كہ اس لیے کہ فوت شدگان كے لیے ہدیہ اور ایصالِ ثواب كے لیے پڑھا جائے۔میرے علم كے مطابق والدین وغیرہ كو ایصالِ ثواب كے لیے قرآن خوانى كرنے كى كوئى ایسى دلیل نہیں ملتى جس پر اعتماد كیا جا سكے، اور رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان یہ ہے: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)) [3] '' جس كسى نے بھى كوئى ایسا عمل كیا جس پر ہمارا حكم نہیں تو وہ عمل مردود ہے ۔'' بعض اہل علم اسے جائز قرار دیتے ہیں، ان كا كہنا ہے كہ قرآنِ مجید یا دوسرے اعمال صالحہ كا ثواب ہدیہ كرنے میں كوئى مانع نہیں، اُنہوں نے اسے صدقہ اور فوت شدگان كے لیے دعا پر قیاس كیا ہے، لیكن یہ صحیح نہیں بلكہ مذكورہ بالا اور اس موضوع كى دوسرى احادیث كى بنا پر پہلا قول ہى صحیح ہے۔ اور اگر تلاوت كا اجروثواب ہدیہ كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو سلف صالحین رحمۃاللہ علیہم بھى ایسا ضرور كرتے، اور پھر عبادت میں تو قیاس كرنا جائز ہى نہیں، كیونكہ عبادات توقیفى ہیں، ان میں كمى و زیادتى نہیں كى جا سكتى اور عبادت كا ثبوت یا تو كلام اللہ سے یا پھر سنّت رسول اللہ سے ہو گا، اس كے علاوہ نہیں، اس كى دلیل وہی سابقہ حدیث ہے ۔''[4]
[1] سورۃ فصلت :44 [2] صحيح مسلم:1912 [3] صحيح مسلم:4493 [4] دیكھیے: مجموع فتاوٰى شيخ ابن باز :8 /360 ،361