کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 27
شمار كرنا صحیح نہیں، كیونكہ جمع ہونے والے ہر شخص نے پورا قرآن تو ختم نہیں كیا بلكہ سنا بھى نہیں، بلكہ سب نے تھوڑا تھوڑا تلاوت كیا ہے تو اُسے اتنا ہى ثواب ملے گا جتنا اس نے تلاوت كیا ہے۔سعودی عرب کی 'دائمی فتویٰ کونسل' کے علما كہتے ہیں: ''قرآن خوانى كے لیے جمع ہونے والوں میں سے ہر ایك كو ایك ایك پارہ دینا تا كہ وہ اس كى تلاوت كرے، اسے مكمل قرآن یعنی ہر ایك كے لیے پورا قرآن شمار نہیں كیا جائے گا۔''[1] دوم:قرآن مجید كى تلاوت كے بعد اجتماعى دعا مشروع نہیں اور نہ ہى قرآن خوانى كا ایصالِ ثواب فوت شدگان كے لیے جائز ہے، اور نہ ہى زندوں كے لیے،کیونکہ ہمارے نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ ہى صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے ایسا کوئی عمل كیا۔ شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سوال كیا گیا کہ كیا میں اپنے والدین كے لیے قرآن مجید ختم كر سكتا ہوں كیونكہ وہ پڑھے لكھے نہیں ؟ اور كیا میرے لیے كسى پڑھے ہوئے شخص كى جانب سے قرآن مجید ختم كرنا جائز ہے كیونكہ میں اسے قرآن كا ثواب ہدیہ كرنا چاہتا ہوں، اور كیا ایك سے زائد اشخاص كے لیے قرآن ختم كر سكتا ہوں ؟ شیخ رحمۃ اللہ علیہ كا جواب تھا: '' نہ تو كتاب اللہ میں اور نہ ہى سنتِ مطہرہ میں نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ كرام رضی اللہ عنہم سے كوئى ایسى دلیل ملتى ہے جو والدین یا كسى اور كو قرآنِ مجید كى تلاوت كا ثواب ہدیہ كرنے كى مشروعیت پر دلالت كرتى ہو۔بلكہ قرآنِ مجید كى تلاوت سے خود فائدہ اُٹھانا اور استفادہ كرنا مشروع ہے، اور اس كے معانى پر غور و فكر اور تدبر كرنا اور اس پر عمل كرنا مشروع كیا گیا ہے جیساکہ اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے: ''یہ بابركت كتاب ہے جسے ہم نے آپ كى طرف اس لیے نازل فرمایا ہے كہ لوگ اس كى آیتوں پر غور فكر كریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل كریں ۔''[2] قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ارشادِ بارى تعالىٰ اس طرح ہے: ''یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دكھاتا ہے جو بہت ہى سیدھا ہے ۔''[3]
[1] دیكھیے: فتاوٰى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء: 2/ 480 [2] سورۃ ص :29 [3] سورۃ الااسراء :9