کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 25
بگوش ایشاں مشوش سازد۔ و نیز مقصود نہ مجرد افادہ است بلکہ افادہ مع التکرار والاستحضار۔ و ایں معنی در غیر مرتب اقویٰ و اتم است'' ''(قرآن کے غیر مرتّب ہونے میں) حکمت یہ ہے کہ ایسا اس کے مخاطبین کے لحاظ سے ہے۔ دراصل قرآن کے نزول کے وقت عربوں کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ نہ الہامی او رنہ کسی انسان کی لکھی ہوئی۔ لہٰذا جو ترتیب آج کتابوں کے مصنفوں نے اختیار کی ہے، اہل عرب اس سے بالکل ناواقف تھے۔ اگر ان شاعروں کا کلام دیکھا جائے جنہوں نے اسلام کا زمانہ پایا۔ یا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ اگر قرآن کی ترتیب کے لیے کوئی ایسا انداز اختیار کیا جاتا جس سے اہل عرب واقف نہ ہوتے تو وہ اس قرآن کو سن کر اجنبیت (Strangeness) محسوس کرتے۔ ان کا ذہن اُلجھ کر رہ جاتا وہ صاف صاف باتیں بھی سمجھ نہ پاتے۔ لیکن قرآن کا مقصد ان کو صرف کوئی بات سمجھا دینا یا کسی واقعے کی خبر پہنچا دینا نہ تھا بلکہ اس کا مقصود یہ تھا کہ تمام باتیں اُن کے ذہن نشین کی جائیں۔ یہ مقصد صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا تھا، جب ہر بات اچانک غیر متوقع طو رپر سامنے آئے۔ سننے والا اسے سن کر چونک اُٹھے وہ اس پر پوری توجہ دے، تاکہ وہ بات اس کےدل و دماغ پر نقش ہوجائے۔''