کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 24
ہے۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے اُنہوں نے کتابیں تصنیف کرلیں اور اس کام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔ بقاعی نے اپنی تفسیر میں یہی کچھ کیا ہے... ''
اس کے بعد امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں:
((... ولنکتف بهذا التنبیه علىٰ هذه المفسدة التي تعثر في ساحاتها کثیر من المحققین، وإنما ذکرنا هٰذا البحث في هذا الموطن، لأن الکلام هنا قد انتقل مع بني إسرائیل بعد أن کان قبله مع أبي البشر آدم علیه السلام، فإذا قال متکلف: کیف ناسب هذا ما قبله؟ قلنا: لا کیف: )) [1]
''اور ہم اس فتنے سے، جسے بعض محققین (Researchers) پھیلا رہے ہیں، لوگوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے اس مقام پر جہاں ابوالبشر آدم کے واقعے کے بعدبنی اسرائیل کا واقعہ شروع ہوتا ہے، یہ بحث چھیڑی ہے تاکہ جب کوئی 'ربطی' (یا 'نظمی') یہ سوال اُٹھائے کہ ان دونوں واقعات میں باہمی ربط کیا ہے؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ : کوئی ربط نہیں ہے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نظم قرآن اور ربط ِ آیات کے فلسفے کے سخت خلاف تھے او روہ اسے ایک فتنہ اور مفسدہ سمجھتے تھے۔
امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی'نظم قرآن'کے قائل نہ تھے اور وہ قرآنِ مجید کو ایک 'مرتب' کتاب نہیں مانتے تھے۔ وہ اپنی کتاب 'الفوز الکبیر' میں لکھتے ہیں:
''حکمت دریں باب موافقت مبعوث الیہم است در لسان و اُسلوبِ بیان۔ تا نزول قرآن درمیان عرب ہیچ کتابے نہ بود۔ نہ کتابِ الٰہی نہ مؤلف بشر۔ و ترتیبے کہ حالا مصنّفین اختراع نمودہ اند، عرب آں رانمی دانستند ۔ اگر ایں را باور نمی داری قصائد شعرائے مخضر مین را تامل کن و رسائل آنحضرت و مکاتیب عمر را بر خواں۔ تا ایں معنی روشن شود۔ پس اگر خلاف طور ایشاں گفتہ شود بحیرت درمانند۔ و چیز ے ناآشنا
[1] فتح القدیراز امام شوکانی:ص60، 61 طبع 2001ء ریاض