کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 23
قائل[1] نہیں رہے۔ اس لیے فراہی مکتب فکر کے حاملین کی تفسیری کتب بھی تفسیر بالراے مذموم کے ذیل میں آتی ہیں۔تیرہویں صدی ہجری کے مجدّد او رمجتہد، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر'فتح القدیر' میں 'نظم قرآن' کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
((اعلم أن کثیرًا من المفسرین جاءوا بعلم متکلف، وخاضوا في بحر لم یکلفوا سباحته، واستغرقوا أوقاتهم في فن لا یعود علیهم بفائدة، بل أوقعوا انفسهم في التکلم بمحض الرأي المنهي عنه في الأمور المتعلقة بکتاب اللّٰه سبحانه، و ذلك أنهم أرادوا أن یذکروا المناسبة بین الآیات القرآنیة المسرودة على هذا الترتیب الموجود في المصاحف، فجاءوا بتکلّفات، وتعسّفات یتبرأ منها الانصاف، ویتنزه عنها کلام البلغاء فضلاً عن کلام الربّ سبحانه، حتی أفردوا ذلك بالتصنیف، وجعلوه المقصد الأهمّ من التألیف، کما فعله البقاعي في تفسیره...)) [2]
''جاننا چاہیے کہ بعض مفسرین ایک ایسے علم کے پیچھے پڑگئے جس میں تکلّف ہی تکلّف تھا۔ وہ ایک ایسے سمندر میں غوطے لگاتے رہے جس میں تیرنے کے وہ مکلف ہی نہ تھے۔ اُنہوں نے ایک بے فائدہ فن میں اپنا وقت صرف کیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے معاملے میں تفسیر بالرائے مذموم کے مرتکب ہوئے۔ وہ ساری عمر موجودہ قرآنی ترتیب کی آیات میں باہمی ربط اور نظم ڈھونڈتے رہے۔ بالکل غیر منصفانہ انداز میں اُنہوں نے اللہ سبحانہ کے کلام کو اس قسم کے تصنع اوربے جا تکلّفات کا حامل قرار دے دیا جن سے انسانی فصیح و بلیغ کلام بھی مبّرا او رپاک ہوتا
[1] 'مسئلہ نظم قرآن اور فراہی/غامدی مکتبِ فکر' پر تفصیلی موقف کے لئے 'محدث' کی مجلس ادارت کے رکن ڈاکٹر حافظ انس نضر مدنی کے مقالہ پی ایچ ڈی 'جمہور مفسرین اور مولانا فراہی کے اُصول تفسیر کا تقابلی جائزہ' میں اسی موضوع کے لئے مخصوص باب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
[2] فتح القدیر ا ز امام شوکانی:ص60، 61 طبع 2001ء ریاض