کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 22
٭ اس کے علاوہ اور کئی قسم کے گمراہانہ تصورات رکھتے ہیں۔ پھر جہاں تک قرآن فہمی کا تعلق ہے یہ لوگ قرآنِ مجید کو بھی انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کی طرح کی ایک کتاب سمجھتے ہوئے پہلے اس کی تمہید اور مقدمہ تجویز کرتے ہیں، پھر قرآن کو اپنے کچھ خاص عنوانات دے کر اسے سات ابواب یاگروپس (Groups) میں تقسیم کرتے ہیں اور آخر میں کچھ سورتوں سے اس کا اختتامیہ ظاہر کرتے ہیں۔ تمام سورتوں کو جوڑا جوڑا(In Pairs) مانتے ہیں۔ سورۃ النصر کومکی سورت قرار دیتے ہیں او راس اپنی اختراع 'فلسفہ نظم قرآن' کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ایجاد کردہ 'نظم' کے اس فلسفے کو سمجھے بغیر کوئی شخص قرآن کو سمجھ نہیں سکتا۔ حالانکہ بات سیدھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں جیسی وضعی و منطقی ترتیب او رمضامین کا ربط ڈھونڈنا ایسا ہی فضول کام ہے جیسے کوئی شخص کسی قدرتی چمن کو دیکھ کر اس میں مصنوعی باغ کی سی روشیں اور قطاریں تلاش کرے یا کرّہ زمین کے مختلف پہاڑی سلسلوں اور اُن کی چوٹیوں میں ربط و نظم کی جستجو کرے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ ایک ہی موضوع پر مسلسل سوچ بچار نہیں کرسکتا۔ وہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے او رایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اسی فطری مناسبت سے قرآن مجید کے مضامین میں بھی تنوّع پایا جاتا ہے۔ قدیم اہل عرب کے شعرا کے قصیدوں میں اور اُن کے خطبا کے خطبوں میں بھی کتابی اور منطقی ترتیب نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے مضامین میں بھی تنوع اور رنگا رنگی ہوتی تھی اور قرآن مجید اُنہی کے اُسلوب میں نازل ہوا ہے۔ جس میں بعض مقامات پر مضامین میں کچھ مناسبت تو ہوتی ہے مگر فلسفہ نظم نہیں ہوتا۔ اس اُمت کے محقق علما کبھی 'نظم قرآن' کے کو تفسیر قرآن میں حجت قرار دینے کے