کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 20
1. اپنی خواہش یا اپنے کسی خاص نظریے یا مخصوص فکر کو لے کر اُس کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنا۔ اس میں یہ نہ دیکھ جائے کہ خود قرآن کیا کہتا ہے بلکہ قرآن کی معنوی تحریف کرکے اُسے اپنی خواہش، اپنے نظریے اور مخصوص فکر کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ یہ ایک من مانی تفسیر ہے جو کبھی عربیت کے خلاف کی جاتی ہے اور کبھی قرآن کی بات کو اس کے اصل سیاق و سباق(Context)سے ہٹا کر کی جاتی ہے۔
2. فرقہ پرستی کے تعصّب سے تفسیر کرنا تاکہ قرآن کو اپنے مخصوص فرقے کے عقائد ونظریات کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ اس طرح کی تفسیر کے نمونے فرقہ پرستوں کی تفسیروں میں عام مل جاتے ہیں۔
3. قادیانیوں نے جو کہ غیر مسلم ہیں، اپنے غیر اسلامی عقائد و اعمال کو قرآن کے مطابق ثابت کرنے کے لیے تفسیر بالرائے مذموم کا ارتکاب کیا ہے۔
4. بعض صوفیا نے اپنے گمراہانہ تصورات و نظریات (جیسے وحدت الوجود وغیرہ) اور بعض باطنی احوال واِردات پر مبنی قرآن کی 'اشاری تفسیر' کی ہے جو کہ تفسیر بالراے مذموم کے ضمن میں آتی ہے۔
5. دورِ جدید کے بعض مفسرین جب سائنسی حقائق کی بجائے سائنسی نظریات (Theories) کے مطابق تفسیر کرتے ہیں تو وہ بھی تفسیر بالراے مذموم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جیسے ڈارون(Darwin) کےنظریۂ ارتقا(Evolution Theory) کو قرآنی تعلیمات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی نظریات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں او رکبھی غلط ثابت ہوتے ہیں، اس لئے ان کے مطابق تفسیر کرنے سے قرآنِ مجید کی حقانیّت اور صداقت پر حرف آسکتا ہے۔البتہ وہ سائنسی اورطبعی حقائق جو تجربے (Experiments) اور مشاہدے (Observations) سے ثابت ہیں، اُن کے مطابق تفسیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے زمین کا گول ہونا وغیرہ۔
6. کسی خاص مسلک و مذہب کے تعصّب میں مبتلا ہوکر اس کی بے جا حمایت و طرف داری