کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 19
ہی فضول او ربے کار ہوتا۔ حالانکہ خود قرآن ہمیں بار بار غوروفکر کرنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے کی دعوت و ترغیب دیتا ہے: ﴿ أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها 24﴾[1] ''کیا پھر یہ لوگ قرآن پر تدّبر نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔'' حقیقت یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین بھی اپنے علم او راپنی عقل و بصیرت سے کام لے کر قرآن کی تفسیر بھی کرتے تھے او راس سے مختلف احکام و مسائل نکالنے کے لئے اجتہاد بھی کرتے تھے۔ بعد کے مفسرین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر بالرائے کی دو قسمیں قرار دیں: ایک ،تفسیر بالرائے محمود اور دوسری، تفسیر بالرائے مذموم تفسیر بالرائے محمود یہ ہے کہ قرآن کو سمجھنے میں عقل و بصیرت او راجتہاد و استنباط سے بھی کام لیا جائے او ریہ پسندیدہ طریقہ ہے۔ اگرچہ ایسی صورت میں تفسیری اختلاف بھی پیدا ہوسکتا ہے جو ایک فطری امر ہے او ربالکل جائز ہے کیونکہ اس سے شریعت میں تنوع اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔ تفسیر بالرائے مذموم یہ ہے کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ قرآن کا منشا کیا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جائے کہ ہماری اپنی خواہش یا پہلے سے کوئی ٹھیرائی ہوئی بات کیا چاہتی ہے اورقرآن کی عبارت اوراس کے مضمون کو کس طرح کھینچ تان کر اپنی خواہش یا اپنے پہلے سے قائم نظریے کے مطابق کرلیا جائے۔ یہ طریقہ مذموم، ناپسندیدہ او رحرام ہے۔ ایسی تفسیر کرنے والے کے لیے دوزخ کی وعید آئی ہے۔ تفسیر بالرائے مذموم کی بعض صورتیں تفسیر بالرائے مذموم کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً:
[1] سورۃ محمد: 24