کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 18
((من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعده من النار)) [1]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔
''جس نے علم کے بغیر قرآن کے بارے میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔''
اس دوسری زیادہ مضبوط حدیث نے پہلی حدیث کے لفظ «برأیه»(اپنی رائے سے) کا مطلب واضح کردیا ہے کہ اس سے مراد «بغیر علم» (علم کے بغیر) ہے۔ گویا تفسیر بالرائے ایسی تفسیر کو کہا جائے گا جو علم کے بغیر کی جائے۔
خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے «برأیه» والی حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ
''اس سے مراد علم کے بغیر اپنے جی سے قرآن کی تفسیر کرنا ہے جوکہ قابل مذمت ہے۔ رہا علم کی رُو سے تفسیر کرنا تو یہ بالکل درست اور جائز ہے کیونکہ اس طرح کی تفسیر مشہو رتابعین مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ، قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اہل علم نے بھی کی ہے اوران لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں ہوسکتی کہ خدانخواستہ وہ لوگ علم کے بغیر محض اپنے جی سے قرآنِ مجید کی تفسیر کرتے تھے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث میں 'رائے' کا لفظ اپنے لغوی معنوں میں نہیں ہے بلکہ ایک اصطلاح کے طور پر آیا ہے جس کا مطلب ہے : ''علم کے بغیر قرآن کی من مانی تفسیر کرنا۔'' گویا ایسی تفسیر کرنا جس میں کوئی شخص یہ نہ دیکھے کہ قرآن کیا کہتا ہے بلکہ یہ دیکھے کہ اُس کی اپنی خواہش یا پہلے سے قائم کی ہوئی کوئی رائے کیا چاہتی ہے او رکسی طرح قرآن کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کرلیا جائے۔ گویا یہ حالت ہو کہ
؏ خود بدلتے نہیں، قرآن کوبدل دیتے ہیں
اس سے واضح ہوا کہ تفسیر بالراے کا یہ مطلب لینا صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے عقل و بصیرت سے کام نہ لیا جائے۔ اگریہی مطلب ہوتا تو پھر قرآن کا سمجھنا سمجھانا
[1] جامع ترمذی: 2950