کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 17
مگر پھر سورۃ المائدۃ میں یہ حکم آگیا کہ
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ 90﴾[1]
''اے ایمان والو! شراب، جؤا ، بتوں کے آستانے اور تیروں سے فال لینا، یہ سب گندے کام ہیں شیطان کے، لہٰذا ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔''
اس آیت کے حکم کے نتیجے میں شراب نوشی مستقل طور پر ہمیشہ کے لیے ممنوع اور حرام قرار دی گئی۔گویا پہلے شراب پی کر نماز کے قریب جانا منع او رحرام تھا، اب شراب نوشی ہمیشہ کے لیے ممنوع اور حرام ٹھہری۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کہ پہلے حکم میں نمازوں کے سوا دوسرے اوقات میں شراب پی لینے کی جو اجازت تھی، وہ اس دوسرے حکم سے منسوخ ہوگئی۔
تفسیر بالراے سے کیا مراد ہے؟
ایک حدیث میں تفسیر بالرائے کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن تفسیر بالرائے میں لفظ 'رائے' کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس لیے ہم اس پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((... ومن قال في القرآن برأیه فلیتبوأ مقعده من النار)) [2]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
''... اور جس نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔''
لیکن اس حدیث سے پہلے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] سورۃ المائدۃ: 90
[2] جامع ترمذی: 2951