کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 15
کا کوئی خاص شانِ نزول ہوتا ہے اُن کے حکم کو صرف اسی موقع کے لیے مخصوص یا محدود نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس حکم کو عام قرار دیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ چونکہ فلاں آیت فلاں شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس کے بارے میں جو حکم آیا ہے وہ بھی اسی شخص کے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ حکم عام او رسب کے لیے ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر سورۃ المجادلۃ میں 'ظہار' کے بارے میں جو آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ اگرچہ دو مخصوص میاں بیوی کے حق میں نازل ہوئی ہیں لیکن ظہار کا حکم عام ہے۔ صرف انہی میاں بیوی کے لیے مخصوص یا محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق (Application) دوسرے لوگوں پر بھی ہوگا۔
البتہ شانِ نزول کے حوالے سے ایک مشکل پیش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تفسیر کی کتابوں میں بعض اوقات ایک ہی سورت یا آیت کے کئی مختلف شانِ نزول لکھے ہوتے ہیں، جبکہ حقیقت میں اُس کا ایک ہی شانِ نزول ہوتا ہے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم او رتابعین جب یہ دیکھتے تھے کہ فلاں آیت یا سورت کے حکم کا اطلاق اُس جیسے کسی اور واقعے پر بھی ہوتا ہے تو وہ اس دوسرے واقعے کوبھی اُسی آیت کا شانِ نزول قرار دیتے تھے۔ اس طرح ایک ہی آیت یا سورت کے بعض اوقات کئی کئی شانِ نزول ہوجاتے تھے۔
اس بارے میں امام بدر الدین زرکشی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب 'البرہان فی علوم القرآن' میں لکھتے ہیں:
((وقد عرف من عادة الصحابة والتابعین أن أحدهم إذا قال: نزلت هذه الآیة في کذا فإنه یرید بذلك أن هٰذه الآیة تتضمّن هٰذا الحکم، لا أن هذا کان السبب في نزولها)) [1]
''صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کی یہ عام عادت ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ فلاں آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بات واقعی اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔''
[1] البرہان فی علوم القرآن: 1/31، 32