کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 14
جانے بغیر نہ تو صحیح طور پر سمجھا جاسکتا ہے او رنہ اُن کی درست تفسیر ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ میں ہےکہ ﴿إِنَّ الصَّفا وَالمَر‌وَةَ مِن شَعائِرِ‌ اللَّهِ ۖ فَمَن حَجَّ البَيتَ أَوِ اعتَمَرَ‌ فَلا جُناحَ عَلَيهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِما ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيرً‌ا فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ‌ عَليمٌ 158﴾[1] ''بےشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لیے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان دونوں (پہاڑیوں) کے درمیان سعی کے چکر لگا لے اور جو کوئی شوق سے کوئی نیکی کرے تو اللہ قدردان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔'' اس آیت کے ظاہری الفاظ سےمعلوم ہوتا ہے کہ حج او رعمرے میں صفا او رمروہ کے درمیان سعی کرنا ضروری نہیں ہے۔ کوئی شخص سعی کرے یا نہ کرے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہر عمرے یا حج میں سعی کرنا واجب اور ضروری ہے۔اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جاہلیت کے دور میں مشرکین نے ان دونوں مقامات پر دو بُت... اِساف اور نائلہ... رکھے ہوئے تھے۔ ان بتوں کی موجودگی میں مسلمانوں کو سعی کرنے میں تامل(Hesitation) ہوا تو فرمایا گیا کہ ان بتوں کی موجودگی میں بھی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی تو اب یہ سعی واجب اور ضروری ٹھہری۔[2] یاد رہے کہ شانِ نزول کے بارے میں مفسرین اور علماے اُصول کا ایک متفقہ قاعدہ یہ ہے: "العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب" مطلب یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے عام ہونے کا اعتبار کیا جائے گا او راسے کسی موقع کی وجہ سے خاص نہیں سمجھا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جن آیات
[1] سورۃ البقرۃ: 158 [2] صحیح بخاری: 4495