کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 13
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے بعض اُردو تراجم میں دانستہ یا نادانستہ قرآنی الفاظ کے وہ معنیٰ لے لئے گئے ہیں جو اُردو زبان میں مستعمل ہیں، جبکہ عربیّت کی رُو سے وہ معنی مراد لینا ہرگز درست نہیں ۔مثال کے طور پر 'وسیلہ' کا لفظ ہے جو قدیم عربی اور قرآن و حدیث کی زبان میں 'قرب' کے معنوں میں آتا ہے مگر اُسے'ذریعے' اور'واسطے' کے معنوں میں لے کر شرک و گمراہی کا دروازہ کھول دیا گیا ۔ حد یہ ہے کہ ایک مشہور مترجم ومفسّر نے قرآن کے الفاظ ﴿وَلَنُذيقَنَّهُم مِن عَذابٍ غَليظٍ 50﴾[1]
کا ترجمہ: ''اور اُنہیں ہم بڑے گندے عذاب کامزا چکھائیں گے۔''کر دیا ہے جو کہ 'عربیت' کے سراسر خلاف ہے۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صحیح فہم قرآن کے لیے عربیت کا لحاظ رکھنا بنیادی شرط ہے۔ اس عربی زبان کا ذوق اور اس میں ملکہ و ممارست ضروری ہے جس میں قرآنِ عظیم نازل ہوا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی اسلامی دور کے علمی و ادبی سرمائے سے مدد لینی چاہیے او رقدیم مستند عربی لغات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ اس كے علاوہ 'ادبِ جاہلی' کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔
لیکن اس ضمن میں یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیےکہ قرآن مجید کے وہ الفاظ جو دینی اصطلاحات (Terms) کے طور پر آئے ہیں اُن کے لغوی یا کوئی اور خود ساختہ اصطلاحی معنیٰ مراد نہیں لیے جاسکتے۔ اُن کا صرف وہی مفہوم لیا جائے گا جو صاحبِ وحی، معلّم قرآن اور شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرما دیا ہے۔ جیسے حج، عمرہ، اقامتِ صلوٰۃ و زکوٰۃ، صوم، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ
7. قرآن مجید کی سورتوں اور آیتوں کی تفسیر اُن کے شانِ نزول کے لحاظ سے کی جائے گی۔
فہم قرآن کے لیے شانِ نزول کی بڑی اہمیت ہے، شانِ نزول (یا سببِ نزول) سے مراد وہ خاص پس منظر (Back Ground) اور مخصوص حالات و واقعات ہیں جن میں قرآن کی بعض سورتوں اور آیتوں کا نزول ہوا ہے۔ اس طرح کے قرآنی مقامات کو اُن کا شانِ نزول
[1] سورۃ حٰم السجدة: 50