کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 12
اس آیت میں مسلمانوں کے راستے یا طریقے کو صحیح قرار دیا گیا ہے او راس کے خلاف چلنے پر دوزخ کی وعید ہے۔ اب جس چیز پر مسلمان متفق ہوجائیں گے وہی اُن کا راستہ اور طریقہ ہے او ریہی اجماعِ اُمّت ہے جس کی خلاف ورزی گمراہی بھی ہے اور دوزخ میں جانے کا سبب بھی۔ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن اُمّتي لا تجتمع على ضلالة)) [1]
''بےشک میری اُمّت گمراہی پر کبھی متفق نہ ہوگی۔''
اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے:
((ما رأه المسلمون حسنًا فهو عند اللّٰه حسن))
''جس بات کوسب مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے ہاں بھی اچھی ہے۔''
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ اجماعِ اُمّت کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے اوراس کی خلاف ورزی کرنا گمراہی ہے۔ لہٰذا کسی اجماعِ قطعی کے خلاف جو تفسیر کی جائے گی، وہ ہدایت کی بات نہ ہوگی بلکہ گمراہی کی چیز ہوگی جس سے بچنا ضروری ہے۔
6. فہم قرآن کے لیے عربیّت یعنی عربی زبان کا پورا لحاظ رکھا جائے۔ قرآنی الفاظ و محاورات کے وہی معنیٰ مراد لئے جائیں جو نزولِ قرآن کے وقت لیے جاتے تھے کیونکہ قرآن اپنے دور کے عربوں کی فصیح و بلیغ زبان میں اُترا ہے۔ مشہور ماہر لغت ابوزکریا الفرّا کا قول ہے کہ ((إن لغة القرآن أفصح أسالیب العربیة علىٰ الإطلاق))
''بے شک قرآن کی زبان نہایت اعلیٰ فصیح عربی اُسلوب میں ہے۔''
لیکن اس حوالے سے ایک مشکل یہ ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ اب اُس کے بیشتر الفاظ اُن معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوتے جن معنوں میں وہ قرآنِ مجید میں آئے ہیں جیسے قوم، فرقہ، فقہ، فاسق، فطور، تاویل، تفصیل، دلیل، وسیلہ، لبن اور سیارہ وغیرہ۔
[1] سنن ابن ماجہ: 3950