کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 111
ساتھ پاکستان کے سیاسی اور عوامی منظر پر لوٹے ہیں یہ ان کی صلاحیتوں کا ایک منفرد اور اعلیٰ نمونہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ثمرات سے مستفید ہونے والے (Beneficiaries of war on terror) سیاستدانوں، حکمرانوں اور ثمرات حاصل کرنے والوں میں سے کوئی بھی پاکستانی علامہ صاحب جیسی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار یا کردار ادا نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آمد اور تقریر سے حکمرانوں اور اپوزیشن میں کسی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا بلکہ عمران خان بھی ان کی تقریر کے حوالے پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری نے نہ تو حکومت کو چیلنج کیا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی حمایت کی بلکہ آئین اور نظام کے حوالے سے پہلے سے طے شدہ انداز میں بات کی۔ پاکستان میں انتخابات کو رکوانے یا ملتوی کرنے کی بات بھی نہیں کی اور پھر 10جنوری کے مارچ کا اعلان بھی کر دیا۔
بعض حلقے تجسس میں ہیں کہ علامہ طاہر القادری کا مشن کیا ہے؟ میری ناقص معلومات کے مطابق علامہ صاحب نہ تو سربراہ مملکت یا وزیراعظم بننے کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی دہری شہریت کے حامل علامہ صاحب کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس کی اجازت ہے لہٰذا احباب خاطر جمع رکھیں علامہ صاحب اقتدار اور انتخابی عہدے حاصل کرنے کی دوڑ میں نہیں ہیں بلکہ ان کا نعرہ ہی یہ ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتخابات سے قبل نظام میں تبدیلی اور ریاست کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنے کا مشن مکمل ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا پاکستان کے اہل اقتدار بلکہ اپوزیشن بھی کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ علامہ صاحب کی پاکستان آمد نے دہشت گردی کی مخالف قوتوں میں بھی گروہی و سیاسی دوریاں کم کی ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائدین کی لاہور کے جلسہ میں موجودگی کا فیصلہ اور عمل اس کی ایک مثال ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے شہر لاہور میں پُرامن اور منظم وکامیاب جلسے کا انعقاد بھی پیش نظر رہے ورنہ مخالفین کے جلسوں کو درہم برہم کرنے کے واقعات بھی تاریخ لاہور کا حصہ ہیں لہٰذا علامہ طاہر القادری نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اس ضخیم فتویٰ کے اجرا، اشاعت او وسیع پیمانے پر اس کی مفت تقسیم کے ساتھ ساتھ کینیڈا میں بیٹھ کر گزشتہ ڈیڑھ سال یا اس سے زائد عرصہ میں اس انداز سے پاکستان آنے اور عوامی سطح پر اپنے مشن کی کامیابی کے لئے جو منظّم تیاری کی تھی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اس کی ایک مثال نیویارک میں علامہ صاحب کے پہلے اجتماع کی تھی جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت تھی اور تمام مناظر دیکھنے کا موقع ملا۔ تقریباً 450 پاکستانی مرد و خواتین پر مشتمل اس اجتماع میں علامہ صاحب نے اُردو کی بجائے انگریزی میں تقریر کی، اردو سمجھنے والوں کے مجمع سے انگریزی میں خطاب کی وجہ جاننے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ہال میں تقریباً 20 گوری نسل کے خوش لباس افراد اِدھر اُدھر کھڑے، بیٹھتے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ علامہ صاحب کی بحفاظت آمد و رفت کے لئے یہ حضرات ڈیوٹی پر سرکاری اہلکار ہیں۔