کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 11
اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اصل میں وہ ایک ہی قول ہوتا ہے جسے مختلف انداز میں بیان کیا ہوتا ہے۔ یہی بات حافظ ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر کے دیباچے میں لکھی ہے: ((فتذکر أقوالهم في الآیة فیقع في عبارتهم تباین في الألفاظ، یحسبها من لاعلم عنده اختلافًا فیحکیها أقوالًا، ولیس کذلك، فإن منهم من یعبر عن الشيء بلازمه أو بنظیره، ومنهم من ینص على الشيء بعینه، والکل بمعنى واحد في أکثر أماکن فلیتفطن اللبیب لذلك)) ’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی آیت کی تفسیر میں جب ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کے اقوال بیان کیے جاتے ہیں اور اُن کے الفاظ میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے تو ناواقف شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس بارے میں کئی مختلف اقوال ہیں، حالانکہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی نے ایک چیز کی تعبیر میں ا س کے لازمی یا مُرادی معنیٰ لیے ہوتے ہیں، کسی نے اس کی نظیر یا مثال پیش کی ہوتی ہے او رکسی نے اصل چیز ہی کو بیان کیا ہوتا ہے۔ مگر سب کے ایک ہی معنیٰ ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقل مند آدمی کو اس بارے میں دھیان کرنا چاہیے۔‘‘ 5. قرآن کی تفسیر اجماعِ اُمّت کے مطابق کی جائے گی۔ کسی قرآنی لفظ یا آیت کی ایسی کوئی تفسیر نہیں کی جاسکتی جو اجماعِ قطعی کے خلاف ہو۔ اس کا سبب ظاہر ہے کہ جن اُمور پر اُمّت متفق ہے اُن کی پیروی میں ہدایت ہے او ران کی خلاف ورزی میں گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا 115﴾[1] ''جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے او رمسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر کسی او رراستے پر چلے جبکہ اس پر صحیح راستہ واضح ہوچکا تھا تو اُسے ہم اُسی طرف پھیر دیں گے جدھر وہ خود پھر گیا او راسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔''
[1] سورۃ النساء: 115