کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 109
جرائم جیسی نہیں۔ اس لئے یاد رکھو، مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی اس جرم کا مرتکب ہو تو وہ 'مرتد' ہے، اگر معاہد (کافر) ایسی حرکت کرے تو حربی عہد شکن ہے۔ اسی طرح تم نے اس عورت کا بھی ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے کے دانت نکلوادیے ہیں جس نے گاکر مسلمانوں کی ہجو کی، اس سلسلہ میں قابل لحاظ یہ بات ہے کہ اگر وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی تھی تو اس کے لئے تادیب و تعذیر ہی کافی تھی (قید وبند یا کوڑے وغیرہ کی سزا) مثلہ جائز نہ تھا اور اگر وہ ذمّیہ تھی تو تم نے اس سے درگزر کیوں نہ کیا، اس کا مشرک ہونا تو اس سے بڑا جرم تھا اور اگر میں پہلے سے تم کو ہدایت نہ کرچکا ہوتا تو تمہارے ناگوار فیصلے کی نوبت تک نہ آتی۔''
یہودی سردار کعب بن اشرف کی ایذا رسانیوں اور کھلی گستاخیوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
((مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَی اللّٰه وَرَسُولَهُ. قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ یَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: نَعَمْ )) [1]
"کعب بن اشرف کو کون ٹھکانے لگائے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اَذیّت دی ہے۔"محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہاں ۔''
بالآخر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھیوں نے ایک خفیہ تدبیر کے ذریعے اس کو جہنم واصل کردیا۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کعب بن اشرف مسلمان نہیں بلکہ ایک یہودی سردار تھا۔اس ضمن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کعب کے قتل کئے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا:
((إنّه نَالَ مِنَّا الأَذَی، وَهَجَانَا بِالشِّعْرِ، وَ لاَ یَفْعَل هَذَا أَحَدٌ مِنْکُم إِلاَّ کَانَ السَّیْف)) [2]
"کعب نے ہمیں اذیت دی، اشعار کے ذریعے ہماری ہجو کی لہٰذا جو کوئی اس جرم کا ارتکاب کرے گا، تہ تیغ کیا جائے گا۔"
یہ ہے گستاخِ رسول کی سزا کا اجماعی حکم جوکہ بیان کیا گیا، اور حیرت کی با ت یہ ہے کہ طاہر القادری صاحب کا بھی یہی سابقہ موقف تھا۔ جس کو اُنہوں نے اپنے موجودہ موقف سے پہلے اپنی ایک تقریر میں یوں بیان کیا تھا:
"جو بھی گستاخی رسول کا مرتکب ہو، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، مرد ہو یا عورت، مسلمان ہو، یہودی ہو، عیسائی ہو، ہندو ہو یا کوئی بھی ہو، جو گستاخِ رسول کا مرتکب ہو اس کی سزا موت ہے۔ اس کو کتےّ کی طرح سزائے موت دے دی جائے۔"
طاہر القادری صاحب کی شخصیت کس قدر منافقانہ اور دوغلے پن کی حامل ہے، ان تمام دلائل کے بعد اس پر کلام کی گنجائش نہیں۔ یہ منافقانہ اور دوغلی روش اس قدر واضح ہے کہ وہ میڈیا جوکہ احکامِ
[1] صحیح بخاری :ج۱۰/ص۲۳۱،رقم :۲۸۰۶
[2] الصارم المسلول علی شاتم الرسول : ۱/۶۴