کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 108
سبّ أحدًا من الأنبیاء أو جهر به فقد نَقَضَ العهد فاقتلوه[1]
"جو مسلمان اللہ تعالیٰ کو گالی دے یا کسی نبی کی شان میں بکواس کرے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والا ہوا اور یہ'ارتداد' ہے۔ لہٰذا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اگر رجوع کرے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے اور جو (کافر) معاہد عناد سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں گالی گلوچ کرے یا کسی پیغمبر کو سبّ و شتم کرے یا ایسے کلماتِ علانیہ کہے تو وہ نقض عہد مرتکب ہو ا، اس لئے اُس کو قتل کردو۔''
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ کی تنقیص کرے، خواہ مسلمان ہو یا کافر، تو واجب القتل ہے۔ میری رائے میں اس گستاخ کو قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے گا۔ (اسی طرح اگر) جو معاہد (ذمّی) عہد شکنی کرے اور اسلام میں گستاخی جیسا فتنہ پیدا کرے وہ واجب القتل ہے۔ کیونکہ مسلمانوں نے اس فتنہ انگیزی کی رخصت پر عہدِ ذمّہ نہیں دیا۔''[2]
مہاجر بن ابی اُمیّہ رضی اللہ عنہ یمامہ اور اس گردونواح کے علاقے پر حکمران تھے۔ اس علاقے میں دو عورتیں تھیں، ان میں ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی تھی اور ایک مسلمانوں کی ہجو کرتی تھی۔ حضرت مہاجر رضی اللہ عنہ نے دونوں کا ایک ایک ہاتھ کٹوادیا اور سامنے کے دانت تڑوادیئے۔ جب اس فیصلے کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے اُن کو یہ خط لکھا:
بَلَغني الذي (سرت) به في المرأة التي تغنَّت وزمرت بشتم النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فلولا ما قد سبقتَني فیها لأمرتك بِقَتْلِهَا؛ لأن حدَّ الأنبیاء لیس یشبه الحدود؛ فمن تعاطي ذلك من مسلم فهو مرتدٌّ أو معاهدٍ فهو محارب غادر... فإنه بلغني أنك قطعت یَدَ امرأة في أن تَغَنَّت به جاء المسلمین ونزعتَ ثَنِیِّتَهَا، فإن کانت ممن تدعي الإسلام فأدب وتقدمة دون المُثْلَة، وإن کانت ذِمِيّةٍ فلعمري لَمَا صفحت عنه من الشرك أعظم، ولو کنت تقدمت إلیك في مثل هذا لبلغت مکروهك، فاقبل الدَّعَةَ[3]
"مجھے تمہارے فیصلے کا علم ہوا جو تم نے شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والی عورت کے بارے میں کیا (کہ اس کا ہاتھ کٹوادیا اور دانت تڑوا دیئے)، اگر تم مجھ سے پہلے ہی اس کو سزا نہ دے چکے ہوتے تو میں تم کو اس کے 'قتل' کا حکم دیتا، کیونکہ انبیاے کرام کی شان میں گستاخی کی سزا عام
[1] الصارم المسلول علی شاتم الرسول: ۱/۱۳۵
[2] ایضاً
[3] ایضاً