کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 107
'مشترکہ صلیبی جنگ' مسلط کی، اس کی مثال توتاریخ اسلامی میں کم ہی ملتی ہے۔ لہٰذا یہ دلیل ہی کلیۃً باطل ہوگئی۔ مزید برآں امریکہ و یورپی ممالک کو 'دار الامن' قرار دینے کے لئے یہ دلیل دینا کہ "وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں" دراصل ان کے ذہنی خلل کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ مسلمان کے ساتھ ذمّی کے بھی مامون ومحفوظ رہنے کی جو شرط فقہاے کرام نے رکھی ہے، تو یہ بات تو کسی ادنیٰ سے طالبعلم سے بھی مخفی نہیں کہ 'ذمّی' دار الاسلام کے ماتحت ہوتا ہے نہ کہ دار الحرب کے... ﴿اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ!﴾ کیا یہ اب بھی عقل سے کام نہیں لیں گے...؟؟ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا پر اجماعِ اُمت سے انحراف طاہر القادری صاحب نے جہاں ایک طرف احکامِ شریعت سے متعلق تواتر کے ساتھ چلے آنے والے اجماع سے انحراف کیا بلکہ وہ اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اس قدر آگے بڑھ گئے کہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رائج شدہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی "گردن زدنی" کی سزا میں یہ کہہ کر تخفیف و ترمیم کردی کہ یہ سزا صرف مسلمانوں کے لئے ہے، کافروں کے لئے نہیں۔ چناچہ رمشا مسیح کیس کے معاملے میں اپنے بیرونی آقاؤں کی موجودگی میں ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ناموسِ رسالت کے قانون کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہوتا، چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا دیگر اقلیتوں میں سے کوئی بھی ہو۔ اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔" یہ ہے وہ انحراف جواُنہوں نے ناموسِ رسالت پر کیا جوکہ اجماعِ اُمت کے صریح خلاف ہے۔ چناچہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کیا ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، آئیے پہلے اس کو جان لیتے ہیں۔خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((یُقتل، وذلك أنه من شتم النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فهو مُرْتَدٌّ عن الإسلام، ولایشتم مسلمٌ النبيَّ)) [1] "جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے، اُسے قتل کیا جائے کیونکہ وہ اس فعل سے 'مرتد' ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جسارت نہیں کرسکتا۔'' حضرت عباس فرماتے ہیں: أیّما مسلم سبّ اللّٰه أو سبّ أحدًا من الأنبیاء فقد کَذَّبَ برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وهي رِدَّةٌ، یُسْتتاب فإنْ رَجَع وإلا قُتِلَ، وأیما معاهدٍ عَاند فسبّ اللّٰه أو
[1] الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول: ۱/۱۲