کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 106
سے استثنا صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب کہ وہاں احکام اسلامی کا مکمل اجرا ہو اور قانونِ شریعت پوری طرح نافذ ہو۔ دارالامان کی تعریف: جو لوگ صرف مسلمانوں کو 'امن' اور دیگر شعائر اسلام (جمعہ و عیدین) کی ادائیگی کی اجازت دینے کی صورت میں کسی علاقہ کو (جیساکہ آج کل ہندوستان، امریکہ اور دیگر یورپی ریاستوں کو) دار الامن یا دارالعہد قرار دینے کی ناروا کوشش کرتے ہیں تو باتفاقِ سلف وصالحین یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دار الحرب میں 'امن' تو مشروط ہی اس بات سے ہے کہ وہ دار الاسلام کی طرف سے دیا گیا ہو نہ کہ دار الحرب کی طرف سے از خود چند مسلمانوں کو امن دینے سے وہ 'دارالامان' یا 'دارالعہد' قرار پاجائے گا۔بالفرض اگر مان لیاجائے کہ امریکہ و دیگر یورپی ممالک بشمول انڈیا، یہ سب 'دار الامان' ہیں جیساکہ طاہر القادری صاحب ہجرتِ حبشہ کی بے محل مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں کفر کی حکومت کے باوجود مسلمانوں کو شعائرِ اسلام کی ادائیگی کی اجازت تھی،تو اسی برخود غلط اُصول پر قیاس کرتے ہوئے امریکہ و دیگر یورپی ممالک بھی 'دار الامان' ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک وہ علاقہ جہاں ایک طرف کفار کی طرف سے مسلمانوں کو شعائر ِاسلام مثلاً جمعہ وعیدین اور دیگر انفرادی احکام کی پابندی کی اجازت ہو، لیکن دوسری طرف اسی دارالامان پر حکمرانی کرنے والے کفار بلادِ اسلامیہ کے دوسرے علاقوں (کشمیر، افغانستان، عراق، بوسنیا، چیچنیا وغیرہ) میں بسنے والے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں، اُن کی بستیوں کو تاراج کریں، ان کی کھیت کھلیانوں کو برباد کریں، ان پر آتش و آہن کی برسات کردیں، لاکھوں مسلمانوں کو خاک وخون نہلادیں،یا پھر اس دار الامان کے کفار اس کام میں دوسرے علاقے کے کفار کی مدد کررہے ہوں تو کیا کفار کے ان علاقوں کو محض اس بنیاد پر کہ اُنہوں نے چند مسلمانوں کو چند شعائر اسلام کی ادائیگی کی اجازت اور امن دے رکھا ہے، دارالامان قرار دیا جاتا رہے گا...؟؟ اور دار الامان کے سلسلے میں ہجرتِ حبشہ کی جو مثال دی جاتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا حبشہ کے کفار نے مسلمانوں کے مقابلے میں قریش مکہ کا ساتھ دیا تھا اور اُن کو پکڑ پکڑ کر کفارِ مکہ کے حوالے کردیا تھا...یا اُنہوں نے دامے درمے سخنے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد ونصرت کی تھی اور سب سے بڑھ کر بات یہ کہ شاہِ حبشہ خود مسلمان ہوگئے تھے اور ان کے انتقال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جنازہ ادا کیا۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ چاہے برطانیہ یا ہندو ستان ہو، یورپی ریاستیں ہوں یا کفار کے دوسرے ممالک، شاذ ونادرہی کوئی ملک ایسا ہو، جس نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے نام پر اقوام متحدہ کے زیر سایہ پوری دنیا میں برپا کی جانے والی 'صلیبی جنگ' میں اہم کردار ادانہ کیا ہو یا اس میں کسی بھی طریقے کی فوجی، مالی، طبّی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم نہ کی ہو۔ خاص کر جس طریقے سے عالم کفر اور ان کے حاشیہ بردارمسلمانوں کے کلمہ گوحکمرانوں نے 'امارتِ اسلامی افغانستان' کے خلاف بالاتفاق