کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 104
امام علاء الدین ابوبکر رضی اللہ عنہ بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف 'بدائع الصنائع' میں فرماتے ہیں: ((لاخلاف بین أصحابنا في أن دار الکفر تصیر دار الإسلام لظهور أحکام الإسلام فیها)) [1] "ہمارے علما میں اس بات کا کسی میں اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر، دارلاسلام میں تبدیل ہوتا ہے، اس میں اسلامی احکام ظاہر ہونے سے۔'' صارت الدار دار الإسلام بظهور أحکام الإسلام فیها من غیر شریطة أخرٰی[2] ''دارالکفر، دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے، اس میں اسلامی احکام جاری ہونے سے دوسری کسی شرط کے بغیر۔'' دارُ الحرب کی تعریف: جس طرح دار الحرب کا کوئی بھی علاقہ اس وقت تک دار الاسلام قرار نہیں پاسکتا جب تک اس میں مکمل اسلامی احکام کا اِجرا اور ظہور نہ ہوجائے۔ اسی طرح کوئی بھی علاقہ جوکہ دار الاسلام کا حصہ ہو وہ اس وقت تک دار الحرب میں تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں کچھ نقائص پیدا نہ ہوجائیں۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی اپنی شہرہ آفاق کتاب 'ردّ المختار' میں لکھتے ہیں: لا تصیر دار الإسلام دار الحرب إلا بأمور ثلا ثة بإجراء أحکام أهل الشرك وباتصالها بدار الحرب، وبأن لایبقي فیها مسلم أو ذمي أمنًا بالأمان الأوّل علىٰ نفسه[3] "دارالاسلام دارالحرب میں تبدیل نہیں ہوتا مگر تین چیزوں کے پائے جانے سے: 1. اہل شرک کے احکام جاری ہونے سے اور 2. اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے اور یہ کہ 3. وہاں کوئی مسلمان یا ذمی اپنی ذات اور دین کے اعتبار سے امن اوّل سے مامون رہے۔'' یہاں اہل شرک سے اہل کفر مراد ہیں یعنی اہل کفر کے احکام علیٰ الاعلان بلا روک ٹوک جاری ہوں، احکام اسلام وہاں جاری نہ ہوں اور دارالحرب سے متصل ہونے سے مراد یہ ہے کہ دونوں 'دار'کے درمیان دار الاسلام کا کوئی اورعلاقہ موجود نہ ہو اور امن اول سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے سبب اور ذمّی کو عہدِ ذمہ کی سبب کفار کے غلبے سے پہلے جو امن تھا، وہ امن کفار و مرتدین کے غلبہ کے بعد مسلمان اور ذمی دونوں کے لئے باقی نہ رہے۔ یہ رائے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ لیکن امام ابو
[1] بدائع الصنائع : 7/۱۳۰ [2] بدائع الصنائع: 7/۱۳۱ [3] فتاویٰ شامی :4/۱۷۴