کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 103
وہ عالم کفر کی سب سے بڑی اور قائد حکومت امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو شرعی طور پر'دار الامن' قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے صرف دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کوبعض عبادات اور ذاتی زندگی میں چند احکامات پر عمل کی اجازت ہے۔ اس کے لئے وہ سلف و صالحین کے فتاویٰ و اقوال کو بڑی خوبصورتی سے توڑ مروڑ کر اور اُن کے سیاق وسباق سے ہٹاکر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ امریکہ ویورپی ممالک کو 'دار الحرب' قرار دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے 'دار الحرب' کو صرف اس بات سے مشروط کرتے ہیں کہ ''وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں۔'' باقی اُن کی نگاہ میں'دار الکفر'محض کسی ایک حکم شرعی کی پر عمل کی اجازت دے دینے کے بعد'دار الکفر' نہیں رہ جاتا، چاہے باقی قانونِ شرعیہ کی دھجیاں بکھیردی جائیں اور شرعی قوانین کے بجائے کفریہ قوانین ہی کیوں نہ نافذ ہوں، اِس سے اُن کی نظر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔[1] ہم اس کی مزید تفصیل میں جانے کے بجائے شرعی و اصطلاح معنوں میں 'دار الاسلام، دار الحرب، دار الامن' کی تعریف سمجھ لیتے ہیں تاکہ اصل حقیقت سامنے آجائے۔ دارالاسلام کی تعریف: فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے باتفاق کسی بھی علاقے کو دار الاسلام قرار دینے کے لئے دو شرطیں ہی بیان کی ہیں: 1۔حاکم کا مسلمان ہونا 2۔احکام اسلامی کا اجرا امام سرخسی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے: ((وبمجرد الفتح قبل إجراء أحکام الاسلام لاتصیر دار الإسلام)) [2] "صرف فتح کے بعد احکامِ اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب، دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہوتا۔'' ((وکذٰلك لو فتح المسلمون أرضًا من أرض العدو حتى صارت في أیدیهم وهرب أهلها عنها. لأنها صارت دار الإسلام بظهور أحکام الإسلام فیها)) [3] "اسی طرح اگر مسلمان دشمنوں کی کوئی زمین فتح کرلیں یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ماتحت ہوجائے اور اس کے رہنے والے بھاگ جائیں (یعنی مغلوب ہوجائیں) تو یہ علاقہ احکام اسلام کے ظاہر ہونے سے دار الاسلام قرار پائے گا۔'' علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((دار الحرب تصیر دار الإسلام بإجراء أحکام أهل الإسلام فیها)) [4] "دارالحر ب میں اہلِ اسلام کے احکامات جاری ہونے سے وہ دارالاسلام میں تبدیل ہو جاتا ہے"
[1] http://youtu.be/ZVRMTSVA1tM [2] المبسوط از سرخسی : 10/۳۲ [3] شرح السیر الکبیر:۲/۱۸۵ [4] فتاویٰ ابن عابدین شامی: 4/۱۷۵