کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 100
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیتے ہوئے اہل جہنّم میں شمار کرنا۔ پس اگر ان رافضی شیعوں کی حقیقت کو شرعی طور پر جان لیا جائے تو اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ طاہر القادری صاحب کس ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ چناچہ العقیدة الواسطية میں درج ہے: ((المعروف أن الرافضة قبّهحهم اللّٰه يسبّون الصحابة ویلعنوهم وربّما کفّروهم أو کفروا بعضهم والغالبیة منهم مع سبّهم لکثیر من الصحابة والخلفاء یغلون في علي وأولاده ویعتقدون فیهم الإلهٰیة)) [1] "یہ بات معروف ہے کہ روافض ... اللہ اُنہیں ہلاک کرے کیونکہ وہ ...صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتے اور ان پر لعنت کرتے ہیں اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں یا اُن میں سے بعض کو کافرکہتے ہیں اور ان کی غالب اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاے راشدین کو گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اُن کی اولاد کے بارے میں غلو کرتی ہے اور ان کے بارے میں خدا ہونے کا اعتقاد رکھتی ہے۔" چنانچہ امام شافعی رحمۃاللہ علیہ ان رافضی شیعوں کی یوں تعریف کرتے ہیں: جس نے یہ کہا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم امام(خلیفہ برحق) نہیں ہیں، تو وہ 'رافضی' ہے۔[2] امام الخر شی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "یہ لقب ہر اس شخص کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس نے دین میں غلو کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں طعن کو جائز قرار دیا۔"[3] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے بیٹے عبد اللہ یوں روایت کرتے ہیں: ((قلت لأبي من الرافضة قال الذي یشتم ویسبّ أبابکر وعمر)) [4] " میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ 'رافضی' کون ہیں، فرمایا وہ شخص جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہم کو برا کہے اور ان کو گالیاں دے۔" چناچہ یہی وہ گروہ ہے جس کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کنت ثم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعنده علي فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ((یا علي! سیکون في أمتي قوم ینتحلون حبّ أهل البیت لهم نبز یسمون الرافضة قاتلوهم فإنهم
[1] شرح العقیدۃ الواسطیہ:۱/۲۵۳ [2] السیر للذہبی فی ترجمتہ [3] شرح مختصر الخلیل [4] السنۃ للخلال:۳/۴۹۲واسنادہ؛صحیح... السنۃ لعبد اللہ بن احمد:۲/۵۴۸