کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 10
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۔یہ محض عقیدت کی بات نہیں ہے بلکہ بالکل فطری حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے کتاب کا مطلب خود صاحبِ کتاب سے سمجھا ہو اُن کے فہم کو بعد والوں کے فہم پر ترجیح ہونی چاہیے۔
افسوس بعد کے لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ : ''سلف ایمان میں قوی ہیں مگر علم میں خلف کا طریقہ قوی ہے۔''
حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے:
((من كان منكم متأسيا فليتأس بأصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فإنهم کانوا أبرّ هذه الأمة قلوبًا، و أعمقها علمًا، و أقلّها تكلفا، و أقوام هديا، وأحسنها حالاً، قوما اختارهم اللّٰه لصحبة نبیه صلی اللہ علیہ وسلم وإقامة دینه، فأعرفوا لهم فضلهم، واتبعوهم في آثارهم، فإنهم کانوا على الهدي المستقیم)) [1]
’’ جس شخص نے کسی کی پیروی کرنی ہو تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی کرے کیونکہ پوری اُمّت میں اُن کے دل سب سے زیادہ نیک تھے۔ اُن کا علم سب سے زیادہ گہرا تھا۔ وہ بہت کم تکلّف کرتے تھے او رنیکی کرنے میں سب سے بڑھ کر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چُن لیا تھا۔ لہٰذا اُن کے مقام و مرتبے کو پہچانو اور اُن کے نقش قدم پر چلو کیونکہ وہ سیدھی راہ پر تھے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود جلیل القدر صحابی تھے اور بعد کے لوگ اُن سے بڑھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں جاننے والے نہیں ہوسکتے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اکثر تفسیری اقوال تفسیر طبری، تفسیر قرطبی ، تفسیر ابن کثیر اور تفسیر المحرر الوجیز لابن عطیہ جیسی کتبِ تفسیر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن ان اقوال میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی آیت کی تفسیر میں بظاہر
[1] جامع بیان العلم وفضلہ، از امام ابن عبدالبر:2/198