کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 99
مغرب میں فحاشی و عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے ، وہی ’باربی ڈول‘ مشرقی لڑکیوں میں فحاشی کے رجحانات بڑھانے میں مؤثر کردار ادا کررہی ہے ، حتیٰ کہ اس بے جان اور بے حرکت چھوٹے سے کھلونے نے مسلمان جیسی ماضی کی باشعور اور حال کی بے شعور قوم کے ایک طبقے کو سوچنے پر مجبور کردیا، حالانکہ ایران میں ایسی گڑیا بازار میں آگئی ہے جو اسلامی لباس زیب تن کیے ہوئے ہے، لیکن انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کی سرپرستی کی وجہ سے مسلم بچیوں کے درمیان ’باربی ڈول‘ کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اسی گلوبلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ عرب اپنی قومی ، دینی اور تہذیبی لباس کو بھول چکے ہیں ، حالانکہ ان کا لباس آج بھی ان کا شعار سمجھا جاتا ہے ،حتیٰ کہ امریکن فلم نگری ’ہالی وڈ‘ اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہندوستانی فلم اسٹوڈیو ’بالی وڈ‘ میں اسی لباس کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کی علامت کے طور پر دکھلایا جارہا ہے، لیکن عرب اپنے اس مرعوب کن لباس کو چھوڑ کرمغربی لباس اپنا چکے ہیں حتیٰ کہ اُردن، شام، فلسطین،مصر او رلیبیا وغیرہ نے تو مغربی اورامریکی لباس ہی کو قومی لباس قرار دے دیا ہے۔ ماضی کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لئے کہیں کہیں کچھ عمر رسیدہ حضرات عربی لباس زیب تن کیے ہوئے نظر آجاتے ہیں ۔ غرض یہ کہ ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن میں آج مسلم قوم مغرب پرستی کا شکار ہوچکی ہے اگر مذکورہ بالا چیزوں کو تہذیب و ثقافت کے متعلقات میں سے مان لیا جائے تو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رہ جاتی کہ مسلمانوں اور خصوصاً عربوں سے ان کا دینی ، فکری، تہذیبی اور تمدنی تشخص رخصت ہوا چاہتا ہے، موجودہ حالات کے تناظر میں ، اسلامی ثقافت ’گلوبلائزیشن‘ کے زیر سایہ مغربی کلچر کے سامنے ہر محاذ پر شکست خوردہ نظر آتی ہے۔ تھوڑا اور گہرائی میں جاکر، اگر ثقافتی عالمگیریت کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل اہم انکشافات سامنے آتے ہیں : خرید و فروخت او رمغرب پرستی گلوبلائزیشن کے قائدین کو اس بات میں بڑی دلچسپی رہی ہے کہ پوری دنیا میں خرید وفروخت اوراس قبیل کے تمام معاملات مغربی طرز پر انجام دیے جائیں ، خریدار اپنی جیب میں کرنسی کے بجائے ، کچھ ’کارڈز‘ رکھے جن پر اس کا نام اور دیگر ضروری معلومات درج ہوں ، کارڈ کو مخصوص