کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 98
لوگ ایک عام مشروب سمجھ کر پی رہے ہیں ۔ [1]
ثقافتی عالمگیریت او راس کے اثرات
عالمگیریت ...ثقافتی پہلو کے اعتبار سے دو بنیادوں پر قائم ہے:
1. انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا فروغ، جس میں ذرائع ابلاغ اور فلمیں وغیرہ بھی داخل ہیں ۔
2.قوموں اور معاشروں کے درمیان مشابہت اوریکسانیت کا بڑھتا ہوا تناسب
یعنی پوری دنیا میں ایک ہی طرح کی تہذیب اور ایک ہی نوعیت کا تمدن مسلط کردیا جائے اور روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کو سٹیلائٹ ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے تاکہ ایک مخصوص طبقہ جب بھی چاہے، اپنے نظریات وخیالات کو ان آلات کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلا دے۔نتیجتاً ہر قوم کی روایات اور اقدار الگ الگ نہ رہیں ، بلکہ ایک ہوجائیں ۔ پوری دنیا کے سوچنے کا طریقہ ایک ہو، لوگوں کے غوروفکر کرنے کا انداز یکساں ہو، ان کی خواہشات ، ان کی دلچسپیاں ، رہن سہن، آدابِ گفتگو، اُٹھنا بیٹھنا غرض یہ کہ ہر چیز میں مماثلت ہو۔ [2]
موجودہ دور میں یہ بات آنکھوں دیکھی ہے کہ ذرائع ابلاغ خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ، پوری طرح مغرب او ریہودیوں کے کنٹرول میں ہیں ۔ یہ طبقہ ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کی مدد سے جو مخصوص افکار و خیالات پھیلا رہا ہے، وہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں ، پوری دنیا خصوصاً وہ قومیں جنہیں اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر کرنا چاہیے ، آج مغربی تقلید میں اندھی ہوئی جارہی ہیں ۔پیرس وبرلن کی گلیوں سے نکلنے والا فیشن اگلے دن کی صبح سے پہلے مشرق کی حدود کو پار کرلیتا ہے اورلوگ چشم و دل فرشِ راہ کیے ہوئے اس فیشن کا استقبال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یورپ و امریکہ کے بچے چوراہوں اور سڑکوں پر بنے ہوئے جن ریسٹورینٹس کے کھانے کھانے کی ضد کرتے ہیں ، وہی کھانے کھانے کے لیے مشرق کے غیر ترقی یافتہ ممالک کی ، گلی کوچوں میں رہنے والے بچے بھی روتے بلکتے نظر آتے ہیں ۔ جس ’باربی ڈول‘ (ایک خاص قسم کی گڑیا کا نام) کے ذریعے
[1] أمريكه المستبدة: ص127
[2] اخبار الأهرام:22/فروری2001ء، الثقافة العربية في عصر العولمة، از ڈاکٹر عبدالفتاح احمدالفاوی