کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 97
’ہیمبرگر‘ نامی یونیورسٹی قائم ہے، اس یونیورسٹی میں درس گاہوں کےساتھ ساتھ بڑے بڑے لیکچر ہال بھی ہیں ، جبکہ 26 زبانوں میں ترجمہ کرنے والے مترجمین اور 25 پروفیسر اس جامعہ میں تعلیم و تربیت پر مامور ہیں ، یہاں سے اب تک 65 ہزا ر افراد کو ’ہیمبرگر‘ سازی میں ’بی اے‘ کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔اس یونیورسٹی سے ہر سال 7 ہزار افراد تیار ہوتے ہیں ، یورپ میں اس کی 15 شاخیں اور 100 تربیتی مراکز ہیں ، پوری دنیا میں ’ہیمبرگر‘ فروخت کرنے والے ہر ریسٹورنٹ کا اس یونیورسٹی یا اس کی کسی شاخ سے رابطہ رہتا ہے۔ ’مکڈانلڈ‘ نامی ریسٹورنٹ میں اچھی ملازمت حاصل کرنے کے لیے ان مراکز سے ٹریننگ لینا ضروری ہے ، ’ہیمبرگر‘ یونیورسٹی میں اکثر اسباق روزانہ کے کاموں سے متعلق پڑھائے جاتے ہیں ، اس یونیورسٹی کی زیادہ تر توجہ تعلیم کے بجائے تربیت پر ہے کہ ’مکڈانلڈ‘ میں کام کرنے والے افراد کیسے عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں اور کس طرح لوگوں کے ساتھ پیش آئیں ۔[1] اس حیرت انگیز انکشاف سے اندازا ہوتا ہے کہ ’مکڈانلڈ‘ (جو محض ایک ریسٹورنٹ ہے) پر امریکہ اور وہاں کی ثقافت کے علمبرداروں کی کس قدر توجہ ہے، یہ انکشاف اس بات کا غماز ہے کہ یہ ریسٹورنٹ جو امریکی ثقافت کی ترجمانی پوری دنیا میں کرتا ہے، امریکن قوم کے نزدیک کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی ثقافت کا دوسرا ترجمان مشہور مشروب کوکاکولا (Coca Cola) ہے، جو آج ہر ملک کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی دستیاب ہے، یہ مشروب 1886ء میں جان بمبرٹن نے امریکی شہر’اٹلانٹا‘ میں ایجاد کیا تھا۔1892ء میں ’’اساکنڑ‘‘ نامی ایک کمپنی نے اس کا فارمولا خرید لیا اور ’کوکا کولا‘ نامی کمپنی قائم کی۔1889ء میں ’پیپسی‘ بھی ایجاد ہوچکی تھی۔ یہ دونوں مشروب انیسویں صدی کے آغاز ہی میں امریکہ سے باہر نکل چکے تھے، 1944ء میں فرانس نے کوک او رپیپسی کے خلاف ہاتھ پاؤں مارے، لیکن اس کی یہ کوشش رائیگاں گئی، آج ’کوک‘ اور’پیپسی‘ نے دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اپنے کارخانے قائم کررکھے ہیں ، جہاں سے یہ مشروب بن کر چپے چپے پر فروخت ہورہا ہے اور امریکی ثقافت و تمدن کی اس علامت کو
[1] رسالہ البیان، عدد 170