کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 96
پاس بھی ایسی ٹی شرٹ ہو جس پر کسی امریکی یونیورسٹی کا یا فلوریڈا صوبے میں واقع برموڈا کی تصویر بنی ہوئی ہو اور اس کے پیروں میں فلمی فنکاروں کی طرح بھاری بھر کم کالے جوتے ہوں ۔ جس سے وہ بظاہر امریکی نظر آئے او راس کو لوگ ترقی پسند اور روشن خیال سمجھیں ۔ یہ صورتِ حال موجودہ دور میں تقریباً ساری دنیا میں دیکھنے کو مل رہی ہے، لڑکیوں نے اپنے قومی لباس کو ترک کرکے امریکی فحش لباس اپنا لیا ہے اور قومی لباس جس کو ثقافت کی پہچان کہا جاتا ہے ، تقریباً ختم ہورہے ہیں ۔ ٹی وی چینلوں او رامریکی فلموں نے ہی اس نئے عالمی لباس کو پھیلانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔[1] ماکولات و مشروبات میں اندھی تقلید امریکہ نے محض اپنے لباس کو ہی سارے عالم میں نہیں پھیلایا بلکہ اس کے ساتھ امریکی ماکولات و مشروبات کو بھی پوری دنیا میں رواج دیا، دنیا کی قدیم قومیں جہاں لباس اور زبان وغیرہ کے سلسلے میں مال دار سمجھی جاتی ہیں ، وہیں ماکولات و مشروبات کے سلسلے میں بھی ان کا امتیاز ہے۔اٹلی جہاں کھانے پینے کی ہزار ہا اقسام پائی جاتی تھیں ، فرانسیسی دیہاتوں میں روایتی کھانوں کی بے شمار انواع و اقسام تھیں ، اسپینی طرح طرح کے کھانے نہایت مہارت کے ساتھ بنایا کرتے تھے، یونان، برازیل، چین، ہندوستان اور عالم اسلام میں بھی انواع واقسام کے کھانوں کی کمی نہیں رہی، لیکن ثقافتی سیلاب کے نتیجے میں چند بے ذائقہ کھانے ہی فیشن اور ترقی کی علامت بن گئے، جن کو فاسٹ فوڈکے نام سے جانا جاتاہے،’ہاٹ ڈوگ‘،’ہیمبرگر‘اور ’پیزا‘کھانا لوگوں کی پہلی پسند بن گیا ہے۔ امریکی کلچر کی نمائندگی کرنے والے ’مکڈانلڈ‘،’برگر کنگ‘اور ’پیزاہٹ‘نامی ریسٹورینٹ ہر ملک او رہر شہر میں کھل چکے ہیں ، جہاں لمبی لمبی قطاروں میں لوگ دوڑے ہوئے آرہے ہیں ۔[2] ماکولات و مشروبات کی ثقافت کو سارے عالم میں رواج دینےکے سلسلے میں امریکہ کی سنجیدگی کس قدر ہے، اس کا اندازا یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ’اوک بروکس‘ نامی شہر میں ایک
[1] أمریکه المستبدة: ص125 [2] ایضاً: ص126